آخری اوقات کے بارے سوالات

سوال: آخری وقت کی نبوت کے مطابق کیا ہونے والا ہے ؟

جواب:
آخری وقت کے بارے میں بائبل بہت کچھ کہتی ہے ۔ تقریبا ً بائبل کی ہر کتاب آخری وقت کے بارے میں نبوت رکھتی ہے ۔ اِن تمام نبوتوں کو حاصل کرنا اور اُنہیں اکٹھا کرنا مُشکل ہو سکتا ہے ۔ نیچے بہت مختصر خلاصہ دیا گیا ہے کہ جو کچھ آخری وقت میں ہو گا اِس کے بارے میں با۴بل فرماتی ہے ۔

مسیح ایک واقعہ میں جو کہ دوبارہ زندہ ہونے کے طور پر جانا جاتا ہےتمام ایمانداروں کو زمین میں سے دوبارہ اُٹھائے گا ( 1 تھسلینکیوں 4 : 13 ۔ 18، 1 کرنتھیوں 15 : 51۔54 ) سچ کی منصفانہ کُرسی پر یہ ایماندار اپنے وقت کے دوران زمین پر اچھے کام اور وفادارانہ خدمت کے لیے انعام سے نوازے جائیں گے ۔ یا انعام سے محروم رہیں گے ، لیکن خدمت اور تابعداری کی کمی کی وجہ سے ابدی زندگی سے محروم نہیں رہیں گے ( 1 کرنتھیوں 3 : 11۔15، 2کرنتھیوں 5 : 10 )

مسیح کا منکر اپنی طاقت میں آئے گا اور اسرائیل کے ساتھ سات سال کے لیے عہد کرےگا ( دانی ایل 9: 27) یہ سات سالہ عرصہ " مصیبت کے دور" کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ مصیبت کے دوران یہاں پر خوفناک جنگیں ، وبائیں ، طاعون اور قدرتی تباہ کاریاں ہوں گی ۔ خدا گناہ ، بدی ، بد کاری کے خلاف اپنا غضب انڈیلے گا ۔ مصیبت کے دور میں اپوکیلیپس کے چار گڑ سواروں اور سات مہروں ، نقارے اور کلمہ انصاف کا ظہور شامل ہے۔

تقریبا ً سات سالوں کے درمیان منکرِ میح اسرائیل کے ساتھ امن کا عہد توڑ ڈالے گا او ر اِس کے خلاف جنگ کرے گا ۔ مسیح کا منکر "The abomination of desolation" کرے گا اور یروشلم کی ہیکل میں پرستش کے لے اپنا بُت رکھے گا ( دانی ایل 9 : 27 ، 2تھسلینکیوں 2 : 3 ۔ 10) جو کہ دوبارہ تعمیر کیا جائے گا ۔ مصیبت کا دوسرا حصہ" بڑی مصیبت" کے طور پر جانا جاتا ہے ( مکاشفہ 7 : 14 ) اور " یعقوب کی مصیبت کا وقت ہے " ( یرمیاہ 30: 7 )

سات سالہ مصیبت کے اختتام پر منکر ِ مسیح یروشلم پر آخری حملہ کرے گا ، ہر مجدون کی جنگ میں اختتام کرے گا ۔ یسوع مسیح واپس آئے گا ، منکرِ مسیح اور اُس کی افواج کو نیست و نابود کرے گا اور اُنہیں آگ کی جھیل میں پھینکے گا ( مکاشفہ 19 : 11 ۔21 ) ۔ پھر مسیح شیطان کو 1000سال کے لیے اتھا ہ گڑے میں باندھے گا اور وہ ایک ہزار سال کی مد کے لیے اپنی زمینی بادشاہت پر حکومت کرے گا ( مکاشفہ 20 : 1 ۔6 )

ہزار سال کے اختتام پر ، شیطان آزاد کر دیا جائے گا ، دوبارہ شکست دی جائے گی اور پھر ہمیشہ کے لیے آگ کی جھیل میں پھینک دیا جئے گا ( مکاشفہ 20 : 7 ۔10 ) پھر مسیح تمام بے ایمان کابڑے سفید تخت پر بیٹھے ہوئے انصاف کرتا ہے ( مکاشفہ 20: 10-15 )

ان سب کو آگ کی جھیل میں پھینکتے ہوؕئے ۔ پھر مسیح ایک نئے آسمان اور نئی زمین اور نئے یروشلم کے ایمانداروں کے لیے رہنے کی ابدی جگہ کے دروازے کھولے گا ۔ وہ پر گناہ ، غم یا موت کے سوا کچھ نہیں ہو گا ( مکاشفہ 21 -22 ) ۔


سوال: آخری وقت کے نشانات کیا ہیں ؟

جواب:
متی 24 : 5 ۔ 8 ہمیں کچھ اہم اشارے دیتی ہے تاکہ ہم آخری وقت کی فہم تک پہنچ سکیں ، " کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آؕئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے ۔ اور تُم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سُنو ے ۔ خبردار گھبرا نہ جانا ! کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے ۔ جھوٹے مسیح میں اضافہ ، جنگ و جدل میں اضافہ ، کال میں اضافہ م بیماریوں اور قدرتی تباہ کاریوں میں اضافہ آخری وقت کے نشانات ہیں ۔ ا٘س پیرا گراف میں اگرچہ ہمیں خبردار کیا گیا ہے ۔ ہمیں دھوکہ نہیں کھانا ہو گا کیونکہ یہ صرف مصائب کا شروع ہے اور اختتام ابھی آنے والا ہے ۔ کچ مبلغین ہر بھونچال کو ، ہر سیاسی اُتار چڑھاو اور اسرائیل پر ہر حملہ کو ایک یقینی نشانکے طور پر نشاندہی کر تے ہیں کہ آخری وقت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے ۔ جبکہ یہ واقعیا ت آخری دنوں تک کی رسائی کا اشارہ ہو سکتے ہیں ، یہ ضروری اشارے نہیں ہیں کہ آٰخری وقت آ چُکا ہے ۔ پولس رسول خبردار کرتا ہے کہ آخری دن غلط تعلیمات میں اضافے کا ایک نشان واضح کریں گے ۔ " لیکن روح صاف فرماتا ہے ک آئندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو کر ایمان سے بر گشتہ ہو جائیں گے ۔" ( 1 تیمتھیس 4 : 1 ) انسان ار لوگوں کی بُری خصوصیات میں اضافہ کی وجہ سے آخری دن " خطرے کے اوقات" کے طور پر بیان ہوئے ہیں جو کہ ہوشیاری کے ساتھ " سچائی کو رکھتے ہیں ۔" ( 2 تیمتھیس 3 : 1-9 ، 2 کرنتھیوں 2 : 3 بھی دیکھیں )

دوسرے ممکنہ نشانات میں یروشلم میں یہودی ہیکل کی دوبارہ تعمیر ، اسرائیل کی طرف بڑھتی ہوئی دُشمنی ، دُنیا میں ایک حکومت کی طرف پیش قدمی شامل ہوں گی ۔ تاہم آخری وقت کا سب سے نمایاں نشان قوم بنی اسرائیل ہے ۔ 1948ء میں اسرائیل ایک آزاد مملکت کے طور پر مان لیا گیا ، بنیاری طور پر 70 بعد از مسیح کے پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے ۔ خا نے ابراہام سے عہد کیا کہ اُس کی نسل کعنان کا مُلک " ایک ( دائمی ملکیت ) کے طور پر لے گی ( پیدائش 17 : 8 ) اور حزقی ایل نے اسرائیل کی جسمانی اور روحانی طور پر دوبارہ جی اُٹھنے کی پیشن گوئی کی ( حزقی ایل 37 باب ) اسرائیل کا اپنے وطن میں ایک قوم کی طرح آباد ہونا اسرائیل کی یومِ حساب میں اہمیت آخری وقت کی نبوت کی روشنی میں ٹھیک ہے ( دانی ایل 11 : 41 ، 10 : 14 ۔ مکاشفہ 11 : 8 )

اِن نشانات کو ذہن نشین کرنےکے ساتھ ہم آخری وقت کی توقعات کے بارے میں عقل اور فہم فراست حاصل کر سکتے ہیں ۔ تاہم ، ہمیں ان واقعیات میں سے کسی ایک کو جلد آنے والے آخری وقت کے واضح نشان کے طور پر وضاحت نہیں کرنی چاہیے ۔ خدا ہمیں کافی معلومات دے چُکا ہے کہ ہم تیاری کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے جسے ہم بیان کرنے والے ہیں ۔


سوال: کلیسیا کا دوبارہ زندہ ہونا کیا ہے ؟

جواب:
لفظ " دوبارہ زندہ " بائبل میں نہیں آتا ہے ۔ اگرچہ دوبارہ زندہ ہونے کا تصور کلام میں واضھ طور پر پڑھا جاتا ہے ۔ کلیسیا کا زندہ ہونا ایک واقعہ ہے جس میں خدا تمام ایمانداروں کو مصیبت کے دوران زمین پر اپنا راستباز انصاف دینے کے لیے زمین زندہ نکالے گا ۔ دوبارہ زندہ ہونا بنیادی طور پر 1 تھسلینکیوں 4 : 13-18 اور 1 کرنتھیوں 15 : 50-54 میں بیان کیا گیا ہے ۔ خدا تمام ایمانداروں کو زندہ کرے گا جو مر چُکے ہیں ، اُنہیں جلالی جسم بخشے گا ، ان کو زمین پر سے اُن ایمانداروں کے ساتھ جو ابھی تک زندہ ہیں اُٹھائے گا اور جن کو اِس وقت پر جلالی جسم بخشے جائیں گے ۔ " کیونکہ خداوند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اُتر آئے گا ۔ اور پہلے وہ جو مسیح میں موئے جی اُٹھیں گے ۔ پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خداوند کا استقبال کریں اور اس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے ۔" ( 1 تھسلینکیوں 4 : 16-17 )

اِس وقت پر دوبارہ زندہ ہونا فطرت میں فی الفور ہو گا اور ہم جلالی بدن حاصل کریں گے ۔ " دیکھو میں تُم سے بھید کی بات کہتا ہوؓں ۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے ۔ اور یہ ایک دم میں ، ایک پل میں ، پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہو گا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مُردے غیر فانی حالت میں اُٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے ۔" ( 1 کرنتھیوں 15 : 51-52 ) دوبارہ جی اُٹھنا جلالی واقعہ ہے ہم سب کو اِس کا مشتاق ہونا چاہیے ۔ اخر کار ہم گناہ سے آزاد ہو جائیں گے ۔ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا کی حضوری میں رہیں گے ۔ دوبارہ جی اُٹھنے کی وسعت اور مطلب پر یہ بہت لمبی بحث ہے ۔ یہ خدا کی مرضی نہیں ہے ۔ ا س کی بجائے ، دوبارہ جی اُٹھنے کے تناظر میں خدا ہم سے " اُن الفاظ ایک دوسرے کی حوصلہ افزای " کرنے کو چاہتا ہے ( 1تھسلینکیوں 4 : 18 )


سوال: مصیبت کے تذکرے میں دوبارہ جی اُٹھنا کب واقع ہونے والا ہے ؟

جواب:
مصیبت کے تذکرے میں دوبارہ جی اُٹھنے کا وقت آج کل کی کلیسیا میں سب سے زیادہ اختلاف ِ رائے والے معاملات میں سے ایک ہے ۔ یہاں تین بنادی نکتہ نظر ، مصیبت سے پہلے ( دوبارہ جی اُٹھنا مصیبت سے پہلے واقع ہوتا ہے ) ، مصیبت کے دوران ( دوبار ہ جی اُٹھنا مصیبت کے درمیان کے قریب یا اُس میں واقع ہوتا ہے ) اور مصیبت کے بعد ( دوبارہ جی اُٹھنا مصیبت کے اختتام پر واقع ہوتا ہے) ہیں ۔ ایک چوتھا نکتہ نظر جو کہ عام طور پر غضب سے پہلے جی اُٹھنے کے طور پر جانا جاتا ہے ، مصیبت کے دوران جی اُٹھنے کے نکتہ نظر کی ہلکی سی ترمیم ہے ۔

پہلا مصیبت کے مقصد کو پہچاننا اہم جزو ہے ۔ دانی ایل 9 : 27 کے مطابق " ہفتہ" سات یعنی ( سات سال) جو کہ اپنی آنے والے ہیں ۔ دانی ایل کی 70 ہفتوں کی مکمل نبوت ( دانی ایل 9 : 20-27 ) قوم بنی اسرائیل کے بارے میں بات کر رہی ہے ۔ یہ وقت کا ایک دورانیہ ہے جس میں خدا اپنی توجہ خٓاص طو ر پر اسرائیل پر مرکوز کرتا ہے ۔ مصیبت میں ساتواں سبت ( ہفتہ) ایک ایسا وقت بھی ہو گا جب خدا خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے ۔ جبکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نشاندہی کرتا ہے کہ کلیسیا بھی موجود نہیں ہو سکتی ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس عرصہ کے دوران زمین پر کلیسیائی ضرورت کیوں ہو گی ۔

دوبارہ جی اُٹھنے پر بنیادی کلام کاپیرا گراف 1 تھسلینکیوں 4 : 13-18 ہے۔ یہ بیان کرتا ہے کہ تمام زندہ ایماندار اُن تمام ایمانداروں کے ساتھ جو مر چُکے ہیں ، خداوند یسوع کا ہوا میں استقبال کریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اِس کے ساتھ رہیں گے ۔ دوبارہ جی اُٹھنا خدا کا زمین سے اپنے لوگوں کا ُٹھایا جانا ہے ۔ چند ایک آیات کے بعد 1 تھسلینکیوں 5 : 9 میں پولس رسول کہتا ہے ، " کیونکہ خدا نے ہمیں غضب کے لیے نہیں بلکہ اِس لیے مقرر کیا کہ ہم اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے نجات حاصل کریں ۔" مکاشفہ کی کتاب جو ک بنیادی طور پر مصیبت کے وقتی دورانیے کے بارے میں ہے، ایک نبوتی پیغام ہے کہ کس طرح خدا مصیبت ک دوران زمین پر اپنا غضب ڈھائے گا ۔ یہ خدا کے ایمانداروں کے ساتھ اپنے وعدے کے خلاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ غضب میں دُکھ نہیں اُٹھائیں گے اور پھر انہیں زمین پر مصیبت کے غضب کے سبب چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ حقیقت میں خدا اپنے لوگوں کے زمین سے اُٹھائے جانے کے وعدے تھوڑی دیر بعد مسیحیوں کو غضب میں سے نجات دلانے کا وعدہ کرتا ہے ۔ اور اُن دو واقعیات کو باہم جوڑتا نظرآتا ہے ۔

دوبارہ جی اُٹھنے کے اوقات ایک اور مُشکل ترین پیرا گراف مکاشفہ 3 : 10 آیت ہے ، جس میں خدا " آزمائش کے وقت " جو کہ زمین پر آنے والا ہے اِس میں ایمانداروں کی نجا ت کا وعدہ کرتا ہے ۔ اس کا مطلب دو باتیں ہو سکتیں ہیں ۔ خواہ مسیح مصائب کے دوران ایمانداروں کی حفاظت کے گا یا وہ ایمانداروں کو مصائب سے نجات دلائے گا ۔ یہ دونوں یونانی لفظ جس کا ترجمہ " میں سے " کیا گیا ہے مستند معنی ہیں ، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ کن ایمانداروں کے ساتھ اس میں سے نکالنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ یہ محض آزمائش نہیں ہے لیکن آزمائش کا وقت ہے ۔ مسیح ایمانداروں کو اُسی قریب قریب آنے والے وقتی عرصے سے بچانے کا وعدہ کر رہا ہے جس میں مصائب ہوں گے ، جس کا نام مصیبت ہے ۔ مصیبت کا مقصد ، دوبارہ جی اُٹھنے کا مقصد ، 1 تھسلینکیوں 5 : 9 کے معنی اور مکاشفہ 3 : 10کی تشریح سب مصیبت سے پہلے کی صورتِ ھال کی واضح تصویر دیتی ہیں ۔ اگر بائبل بالکل اسی طرح اور مسلسل تشریح کر تی ہے تو مصیبت سے پہلے جی اُٹھنا سب سے زیادہ بائبل کے مطابق تشریح ہے ۔


سوال: مصیبت کیا ہے ؟ ہم کس طرح سے جانتے ہیں کہ مصیبت آخری سات سال میں ہو گی ۔

جواب:
مصیبت کا وقت ایک آنے والے سات سالہ دورانیہ ہے جب خدا اسرائیل کی اصلاح کو ختم کرے گا اور نا راستباز دُنیا کے لیے اپنے غضب کو حتمی شکل د ے گا ۔ ان تمام لوگوں سے بننے والی کلیسیا جو کہ آدمی پر ایمان رکھتے ہیں اور یسوع مسیح کا کام اُنہیں گناہ کے سبب عاب سے بچاتا ہے ، مصیبت کے دوران موجود نہیں۔ زمین پر کلیسیا ایک واقعہ میں جو کہ دوبارہ جی اُٹھنے کے نام سے جانا جاتا ہے اُٹھا لی جائے گی ( 1 تھسلینکیوں 4 : 13 -18، 1کرنتھیوں 15 : 51-53) کلیسیا آن والے غضب سے بچ جاتی ہے ( 1 تھسلینکیوں 5: 9 ) تمام کلام میں مصیبت کا دوسرے ناموں سے حوالہ دیا جاتا ہے جیسا کہ خداوند کا دن ( یسعیاہ 2 : 12،13: 6-9، یوایل 3 : 14 ، 2 : 1-31 ، 1 : 15 ، 1 تھسلینکیوں 5 : 2 ) دُکھ یا مصیبت ( استثنا 3 : 40، صفنیاہ 1 : 1) بڑہی مصیبت جو کہ سات سالہ دور کے درمیان زیادہ شدت کا حوالہ دیتی ہے ( متی 24 : 21 ) دُکھ یا مصیبت کا دن ( دانی ایل 12 : 1 ۔ صفنیاہ 1: 15 ) یعقوب کی مصیبت کا وقت ( یرمیاہ 30 : 7 )

مصیبت کے وقت اور مقصد کو سمجھنے ک خاطر دانی ایل 9 : 24-27 کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ یہ پیرا گراف 70 ہفتوں کی بابت بات کرتی ہے جو کہ " تیرے لوگوں " کے خلاف بیان کیا جاتا ہے ۔ دانی ایل کے لوگ یہودی ہیں ، یونی قوم بنی اسرائیل اور دانی ایل 9 : 24 وقت کے لیے عرصے کی بات کرتا ہے جب خدا " خطا کاری اور گنا ہ کا خاتمہ ہو جائے ۔ بد کر داری کا کفارہ دیا جائے ۔ ابدی راستبازی قائم ہو ۔ رویااور نبوت پر مہر ہو اور پا ک ترین مقام ممسوع کیا جائے۔ " خدا بیان کرتا ہے کہ "77" یہ چیزیں پورا کرے گا یہ 77 سالوں یا 490سالوں کا دور ہے ( کچھ ترجمے سالوں کے 70 ہفتوں کا حوالہ دیتے ہیں ) ۔ دانی ایل میں ایک پیرا گراف سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ 25 اور 26 آیات میں یہ بتاتا ہے کہ مسیح یروشلم کی دوبارہ تعمیر کے حکم کے آغاز کے ساتھ " ستر اور سات اور باسٹھ اور سات ہفتوں کے بعد علیحدہ ہو جائے گا ( میزان 69 ) دوسرے الفاظ میں 69 سالوں کا سات گنا یعنی ( 483 ) سال ، یروشلم کی دوبارہ تعمیر کے حکم کے بعد علیحدہ ہو جائے گا ، بائبل تاریخ دان تصدیق کرتے ہیں کہ یروشلم کی دوبار ہ تعمیر کے حکم سے لیکر اُس وقت تک یسوع کو صلیب دیا گیا اس وقت تک 483 سال گزر گئے تھے ۔ زیادہ مسیحی مبلغین الہیات ( آنے والی باتیں / واقعیات ) کے نظریات سے ہٹ کر اوپر دئے گئے دانی ایل کے ستر اور سات ہفتوں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ یروشلم کی دوبارہ تعمیر ی حکم سے لیکر مسیح کے علیحدہ ہونے تک 483 سال گزرنے کے ساتھ یہ ایک سات سالہ دور دانی ایل 9 : 24 کی اصطلاحات کو پورا کرنے کے لیءے بچتاہے ، " خطا کاری اور گناہ کا خاتمہ ہو جائے ، بد کرداری کا کفارہ دیا جائے ، ابدی رویا اور نبوت پر مہر ہو اور پاک ترین مقام ممسوع کیا جائے " ۔ یہ سات سالہ آخری دور اور مصیبت کے دور کے طور پر مانا جاتا ہے ۔ یہ ایسا وقت ہے جب خدا اسراءےل کو اُس کے گناہ کے سبب اُسکی اصلاح ختم کرتا ہے ۔

دانی ایل 9 : 24 ساتسالہ مصیبت کے دور کی چند جھلکیاں پیش کرت ہے ۔ اور وہ ایک ہفتہ کے لیے بہتوں سے عہد قائم کرے گا اور فیصلیوں پر اُجاڑنے والی مکروہات رکھی جائیں گی ، یہاں تک کہ بر باد ی کمال کو پہنچ جائے گی اور وہ بلا جو مقرر کی غ۴ی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقع ہو گی ۔ " جس شخص کے بارے میں آیت بتاتی ہے وہ آدمی ہے جسے یسوع " اُجاڑنے والی مکروہ چیز " کہتا ہے ( متی 24 : 15 ) اور مکاشفہ 13 باب میں "حیوان " کہا گیا ہے دانی ایل 9 : 27 کہتی ہے کہ حیوان سات سال کے لیے عہد قائم کرے گا ، لیکن اِس ہفتے کے دوران ( مصیبت میں ساڑھے تین سال ) میں وہ قُربانی کو منع کر تے ہوئے عہد توڑے گا ۔ مکاشفہ تیرا باب وضاحت کرتا ہے کہ حیوان اپنے آپ کو مقدس مقام میں رکھےنے اور دُنیا سے پرستش کا تقاضا کرتا ہے ۔ مکاشفہ 13 : 5 کہتی ہے کہ یہ 42 ہفتوں تک جاری رہے گا ، جو کہ ساڑھے تین سال ہیں ۔ جب سے دانی ا یل 9 : 27 کہتی ہے کہ یہ ہفتے کے دومیان میں واقع ہو گا اور مکاشفہ 13 : 5 کہتی ہے کہ حیوان اِسے 42 ہفتوں کے لیے کرے گا ، چانج کرنے کے لیے یہ آسان ہے کہ وقت کی کُل لمبائی 84 ہفتے یا 7 سال بنتی ہے ۔ دانی ایل 7 : 25 بھی دیھکیے ، جہاں پر " وقت " " اوقات" اور " ایک وقت کا آدھا حصہ" ( وقت = ایک سال : اوقات = 2 سال : وقت کا آدھا = آدھا سال 1/2) بھی بڑی مصیبت کا حوالہ دیتے ہیں ، سات سالہ مصیبت کا دور جب حیوانن اپنی طاقت میں آئے گا ۔

مصیبت کے بارے میں مزید حوالہ جات کے لیے مکاشفہ 11 : 2-3 آیت دیکھیے جو کہ 1260 دنوں اور 42 ہفتوں کی بابت بات کر تی ہے اور دانی ایل 12 : 11-12 آیت جو 1290 دنوں اور 1335 دنوں کی بابت بات کر تی ہے ۔ یہ دن مصیبت کے درمیانی نکتہ کا ایک حوالہ دیتے ہیں ۔ دانی ایل 12 باب میں اضافی دنوں میں قوموں کے انصاف کے لیے آخری وقت ( متی 25 : 31 -46 ) اور مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت کے انداز و ترتیب کے وقت ( مکاشفہ 20 : 4-6 ) شامل ہو سکتا ہے ۔


سوال: یسوع مسیح کی آمدِ ثانی کیا ہے ؟

جواب:
یسوع مسیح کی آمدِ ثانی ایمانداروں کی اُمید ہے کہ خدا تمام چیزوں پر قادر ہے اور اپنے کلام کے وعدوں اور نبوتوں پر وفادار ہے ۔ اپنی پہلی آمد میں یسوع مسیح زمین پر بیت الحم میں ایک چرنی میں ایک بچے کے طور پر آیا ، جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی تھی ۔ یسوع نے مسیح کی بہت ساری نبوتوں کو اپنی پئداش ، زندگی ، منادی ، موت اور دوبارہ جی اُٹھنے کے دوران پورا کیا ۔ تاہم یہاں مسیح کے بارے میں چند پیشن گوئیاں ہیں جو یسوع نے پوری نہیں کی تھیں ۔ مسیح کی آمدِ ثانی ان باقی رہ جانے والی پیشن گوئیوں کو پورا کرنے کے مسیح کی دوبارہ واپسی ہے ۔ اپنی پہلی آمد میں ٰیسوع مصیبتیں اُٹھانے والا نوکر تھا ۔ اپنی آمدِ ثانی میں یسوع ایک فاتح بادشاہ ہو گا ۔ اپنی پہلی آمدِ ثانی میں یسوع بہت ہی ساز گار حالات میں آیا تھا ۔ اپنی آمدِ ثانی میں یسو ع اپنے ساتھ آسمانی موجوں کو لے کر آے گا ۔

پُرانے عہد نامہ کے نبیوں نے اُن دو آمدات کے درمیان فرق کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی تھی ۔ یہ یسعیاہ 9 : 6-7 ، 7 : 14 اور حزقی ایل 14 : 4 میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ پیشن گوئیوؓں کے نتیجے کے طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ افراد کے بارے میں ہیں ، بہت سارےت یہودی مذہبی مبلغ ایمان رکھتے ہیں کہ وہاں پر دونوں مصائب برداشت کرنے والا مسیح اور فاتح مسیح ہوں گے ۔ وہ یہ سمجھنے میں کیوں ناکام ہیں کہ صرف ایک ہی مسیح ہے اور وہ دونوں کرداروں کو پورا کرے گا ۔ ہسوع نے اپنی پہلی آمد میں مصائب خوردہ نوکر کے کردار کو پورا کیا ( یسعیاہ 53 باب )یسوع کی آپنی آمدِ ثانی میں اسرائیل کے نجات دہندے اور بادشاہ کے کردار کو پورا کرے گا ۔ زکریاہ 12 : 10 اور مکاشفہ 1 : 7 ، آمد ِ ثانی مسیح کے مجسم ہو کر آنے کو بیان کر تیں ہیں ۔ اسرائیل اور تمام دُنیا جب پہلی بار آیا تھا اُسے قبول نہ کرنے کا ماتم نہیں کریں گے ۔

یسوع کے آسمان پر چڑھ جانے کے بعد فرشتوں نے رسولوں کو اعلان کیا ، " اے گلیلی مردو ! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گےا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے ۔ " زکریاہ 14 : 4 کوہِ زیتوں کی آمدِ ثانی کے مقام کی بابت نشاندہی کرتی ہے ۔ متی 24 : 30بیان کر تی ہے ، " اور اُس وقت ابنِ آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا ۔ اور اُس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹینگی اور ابنِ آدم کو قدرت اور جلال کے ساتھ آسمانوں کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی ۔" طیطس 2 : 13 آمدِ ثانی کو " جلالی ظہور" کے طور پر بیان کرتی ہے ۔

آمدِ ثانی سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ مکاشفہ 19 باب 11-16 آیات میں بیان کی گئی ہے ، " پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُس پر ایک سوار ہے جو سچا اور بر حق کہلاتا ہے اور وہ راستی کے ساتھ انصا ف اور لڑائی کرتا ہے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شعلے ہیں اور اُس کے سر پر بہت سے تاج ہیں اور اُس کا ایک نام لکھا ہوا ہے جسے اُسکے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اُس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے ۔ اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے پہنے ہوئےاُس کے پیچھے پیچھے ہیں ۔ اور قوموں کے مارنے کے لیے اُس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا اور قادرِ مطلق خدا کے سخت غضب کی مے کے حوض میں انگور روندے گا ۔ اور اُس کی پوشاک اور ران پر یہ لکھا ہوا ہے بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوندہے "۔


سوال: کیا ہزار سالہ بادشاہت لغوی معنوں میں یا اعداد و شمار کے حساب سے ہے ؟

جواب:
ہزار سالہ بادشاہت زمین پر یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت کا عنوان ہے ۔ کچھ لوگ ہزار سال کی تمثیلی لحاظ سے وضاحت کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ ہزار سالوں کو محض " وقت کا ایک لمبا عرصہ" کہنے کے لیے ایک عددی طریقہ سمجھتے ہیں کہ لغوی معنوں میں زمین پر مسیح کی جسمانی طور پر بادشاہت کو سمجھتے ہیں ۔ تاہم مکاشفہ 20: 2-7 آیات میں ہزار سالہ بادشاہی کو 6بار ہزار سال لمبے عرصہ کو کہا گیا ہے ۔ اگر خدا " وقت کے ایک لمبے عرصے " کو بیان کرنا چاہتا تھا تو وہ ایسا بڑی آسانی سے ایک ٹھیک وقت کے تصور کے اور قطعی طور پر بار بار دہرانے کے بغیر کر سکتا تھا ۔

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ جب مسیح دوبارہ واپس زمین پر آتا ہے تو وہ داود کے تخت پر بیٹھ کر یروشلم میں اپنے آپ کو ایک بادشاہ کے طور پر مضبوط کرے گا ۔ ( لوقا 1 : 32 ۔ 33) غیر مشروط عہد بادشاہی کے قیام کے لیے مسیح کی ہو بہو اور جسمانی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ابراہام کا عہد اسرائیل کے لیے ایک وطن ایک آنے والی نسل اور حکمران اور ایک روحانی برکت کا وعدہ کرتا ہے ( پیدائش 12 : 1-3 ) فلسطنیوں کا عہد اسرائیل سے ملک پر دوبارہ واپسی اور وطن پر قبضے کا وعدہ کرتا ہے ( استثنا 30: 1-10 ) داود کا عہد اسرائیل سے معافی ، اِس کا مطلب ہے کہ جس کے سبب قوم برکت پائے گی ۔ ( یرمیا ہ 31 : 31-34)

آمد ِ ثانی پر یہ عہد پورے ہوں گے جیسے ہی اسرائیل قوموں میں سے دوبارہ اکٹھی ہو گی ( متی 24: 31) ۔ خدا کی طرف رجوع کرنے کے لیے ( زکریاہ 12 : 10-14)اور مسیح کی یعنی یسو ع مسیح کی حکومت میں مُلک پر دوبارہ قبضہ کرے گا ۔ بائبل ہزار سالوں کے دوران حالات کو ایک کامل ظاہری اور روحانی ماحول کے بارے بات کر تی ہے ۔ یہ امن ( میکاہ 4 : 2-4، یسعیاہ 32 : 17-18 ) ، خوشی ( یسعیاہ 61 : 7 ) ، اطمینان ( یسعیاہ 40 : 1-2 ) اور غربت اور بیماری کے بغیر دور ہو گا ( عاموس 9 : 13-15 ، یو ایل 2 : 28-29 ) بائبل یہ بھی بتاتی ہے کہ صرف ایماندار ہرزار سالہ بادشاہی میں داخل ہو نگے ۔ ا٘س وجہ سے کیونکہ یہ مکمل راستبازی ( متی 25 : 37 ، زبور 24 : 3-4 ) تابعداری ( یرمیاہ 31 : 33 ) پاک دامنی ( یسعیاہ 35 : 8 ) سچائی ( یسعیاہ 65 : 16 ) اور روح القدس سے بھرے جانے کا دور ہو گا ( یو ایل 2 : 28-29 ) مسیح ایک بادشاہ کے طور پر ( یسعیاہ 11 : 1-10 ، 9 : 3-7 ) داود ایک نائب کے طور پر ساتھ حکومت کرے گا ( یرمیاہ 33 : 15-21 ، عاموس 9 : 11 ) مقدس اور گورنر بھی حکومت کریں گے ( یسعیاہ 32 : 1 متی 19 : 28 ) اور یروشلم دُنیا کا سیاسی مرکز ہو گا ( زکریاہ 8 : 3 ) ۔

مکاشفہ 20 : 2-7 ہزار سالہ بادشاہت کا ٹھیک ٹھیک وقت بتاتا ہے ۔ حتی کہ کلام کے اِن بیانات کے علاوہ یہاں پر بے شمار دوسرے حوالے ہیں جو کہ زمین پر مسیح کی ہو بہو حکمرانی کی طرف اشارہ کر تے ہیں ۔ خدا کے بہت سارے عہد اور وعدوں کے پورے ہونے کا انحصار ایک ہو بہو ، جسمانی اور آنے والی بادشاہت میں ہے ۔ یہاں پر ہزار سال حکومت اور اِس کے ہزار سالہ دورانیے کی ہو بہو وضاحت کے انکار کے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے ۔