4
جو کچھ ہو رہا تھا اس کے متعلق مردکی نے سنا۔ جب اس نے یہودیوں کے خلاف بادشاہ کا حکم سنا تو اپنے کپڑے پھا ڑ لئے اس نے سوگ کا لباس پہن لیا اور اپنے سر پر خاک ڈا لی۔ وہ اونچی آواز میں پھوٹ پھوٹ کر چیختے ہوئے شہر میں نکل پڑا۔ لیکن مردکی صرف بادشاہ کے دروازہ تک ہی جا سکا کیوں کہ سوگ کا لباس پہن کر دروازہ کے اندر جانے کی کسی کو بھی اجازت نہ تھی۔ ہر صوبہ میں جہاں کہیں بھی بادشاہ کے یہ احکام پہنچے یہودیوں میں رونا دھو نا اور سوگ شروع ہو گیا۔ وہ لوگ روزہ رکھتے اور چیختے تھے۔ بہت سے یہودیوں نے سوگ کے کپڑے پہن لئے اور اپنے سروں پر خاک ڈا لے زمین پر پڑے تھے۔
ایستر کی خادمہ لڑ کیوں اور خواجہ سراؤں نے ایستر کے پاس جا کر مردکی کے حالات کے متعلق بتا یا۔ اس کی وجہ سے ملکہ ایستر بہت رنجیدہ اور بہت پریشان ہو گئی اس نے مردکی کے پا س سوگ کے لباس کے بجائے دوسرے کپڑے پہننے کو بھیجے لیکن اس نے ان کپڑے کو پہننے سے انکار کیا۔ اسکے بعد ایستر نے ہتاک کو بلایا کہ میرے سامنے آؤ۔ ہتاک بادشاہ کے خواجہ سراؤں میں سے ایک تھا جسے بادشاہ نے اسکی ( ایستر کی) خدمت کے لئے مقرّر کیا تھا۔ ایستر نے اسے یہ پتہ لگا نے کے لئے بھیجا کہ کیا ہو رہا ہے اور مرد کی کو کیا چیز تکلیف دے رہی ہے ؟ ہتاک شہر کے اس کھلے میدان میں گیا جہاں شاہی دروازہ کے آگے اس نے مردکی کو دیکھا۔ وہاں مردکی نے ہتاک سے جو کچھ ہوا تھا سب کہہ ڈا لا۔ اس نے ہتاک کو یہ بھی بتا یا کہ ہامان نے یہودیوں کو مار ڈالنے کے لئے بادشاہ کے خزا نے میں کتنی دولت جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مر دکی نے ہتاک کو یہودیوں کو ہلاک کرنے کے لئے بادشاہ کے حکم پر مشتمل خط کی ایک نقل بھی دی۔ اور شاہی حکم نامہ شہر سوسن میں ہر جگہ بھیجا گیا تھا۔ مرد کی یہ چاہتا تھا کہ ہتاک اس خط کو ایستر کو دکھا ئے اور ہر بات اسکو پوری طرح بتا دے۔ اور اس نے اس سے یہ بھی کہا کہ وہ ایستر کو بادشاہ کے پاس جاکر مرد کی اور اسکے لوگوں کے لئے رحم کی درخواست کر نے کی کو شش کرے۔
ہتاک ایستر کے پاس واپس آیا اور اس نے ایستر سے جو کچھ مرد کی نے کہنے کے لئے کہا تھا سب کچھ کہہ دیا۔
10 پھر ایستر نے ہتاک کے ذریعہ مرد کی کو یہ کہلا بھیجا۔ 11 “مرد کی! بادشاہ کے تمام قائد اور بادشاہ کے تمام صوبوں کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے کہ کوئی بھی بغیر بلا ئے بادشاہ کے اندرونی دربار میں نہیں جا سکتا ہے۔ قانون سب کے لئے جنس کے بلا لحاظ یکساں نا فذ ہوتا ہے ، چا ہے اسے مانے یا پھر مرے۔ صرف سوائے اسکے کہ ، اگر بادشاہ کے ہاتھ کا سونے کا ڈنڈا اس آدمی کو دے دیا جائے جو اس سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر بادشاہ ایسا کر تا تو اس آدمی کو مارنے سے بچا لیا جا تا ہے۔” اس نے یہ بھی کہا ، “مجھے بادشاہ سے ملنے کے لئے ۳۰ دن سے نہیں بلا یا گیا ہے۔”
12-13 اس کے بعد ایستر کا پیغام مرد کی کے پاس پہنچا دیا گیا۔ اس پیغام کو پاکر مرد کی نے اسے جواب بھیجا : “ایستر ! ایسا مت سوچ کہ تو بادشاہ کے محل میں رہنے کی وجہ سے سارے یہودیوں میں سے تم ہی صرف بچ جاؤ گی۔ 14 اگر اب تم خاموش رہو گی تو یہودیوں کے لئے مدد اور خلاصی تو کسی دوسرے ذرائع سے آہی جائے گی۔ لیکن تم اور تمہارے باپ کے خاندان سب مر جائیں گے۔ اور کون جانتا ہے کہ شاید جن مصیبتوں کو ابھی ہم لوگ جھیل رہے ہیں اسے حل کرنے کے لئے تم ملکہ بنی ہو۔”
15 اس پر ایستر نے مردکی کو یہ جواب بھجوایا : 16 “مردکی ! جاؤ اور جاکر تمام یہودیوں کو شہر سوسن میں جمع کرو اور میرے لئے روزہ رکھو تین دن اور تین رات تک نہ کچھ کھا ؤ اور نہ ہی کچھ پیو۔ تیری طرح میں اور میری خادمائیں بھی روزہ رکھیں گی۔ ہمارے روزہ رکھنے کے بعد میں بادشاہ کے پاس جاؤں گی میں جانتی ہوں کہ اگر بادشاہ مجھے اپنے پاس نہ بلا یا تو اس کے پاس جانا اصول کے خلاف ہے لیکن میں کسی بھی طرح سے بادشاہ سے ملاقات کروں گی۔ اور اگر مجھے مرنا پڑیگا تو مرونگی۔”
17 اس طرح مردکی وہاں سے چلا گیا اور ا یستر نے اس سے جیسا کرنے کو کہا تھا اس نے ویسا ہی کیا۔
3:9+شاید3:9کہ ہامان اس رقم کو پھانسی دیئے جانے وا لے یہودی کی جائیداد کو ضبط کر کے جمع کر نے کی امید کر رہا تھا۔3:15+جیسا3:15کہ بادشاہ اور ہامان نےقانون کے اعلان کا جشن منایا، جب کہ سوسن کے شہری یہودیوں کے تباہ کاری کے بادشاہ کے حکم کو سمجھ نہ سکے۔ اس لئے وہ لوگ غمزدہ، گھبراہٹ اور حیرانی کے عالم میں تھے۔ شاید کہ وہ لوگ ان لوگوں سے اچھا پڑوسی پن یا اچھا تجارتی تعلقات رکھتے تھے۔