13
(مرقس ۴:۱-۹؛ لوقا ۸:۴۔۸)
اسی دن یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جاکر بیٹھ گئے۔ اور کئی لوگ یسوع کے اطراف جمع ہو گئے۔ تب یسوع کشتی میں جا بیٹھے اور تمام لوگ جھیل کے کنارے کھڑے تھے۔ تب یسوع نے تمثیلوں کے ذریعہ کئی چیزیں انہیں سکھا ئیں۔ اور یسوع انکو یہ تمثیل دینے لگے کہ
ایک کسان بیج بونے کے لئے گیا۔ “جب وہ تخم ریزی کررہا تھا تو چند بیج راستے کے کنارے پر گرے۔ اور پرندے آکر ان تمام بیجوں کو چگ گئے۔ چند بیج پتھریلی زمین میں گر گئے۔ اس زمین میں زیا دہ مٹی نہ ہو نے کے وجہ سے بیج بہت جلد اگ آئے۔ لیکن جب سورج ابھرا، اس نے پودوں کو جھلسا دیا۔ تو وہ اُگے ہوئے پو دے سوکھ گئے۔ اس لئے کہ ان کی جڑیں گہرا ئی تک نہ جا سکیں۔ دیگر چند بیج خا ر دار جھا ڑیوں میں گر گئے۔اور وہ خا ر دار جھا ڑیوں نے ان کو دبا کر ان اچھے بیجوں کی فصل کو آگے بڑ ھنے سے روک دیا۔ دوسرے چند بیج اچھی زر خیز زمین میں گر گئے۔ اور وہ نشو نما پا کر ثمر آور ہوئے بعض پودے صد فیصد بیج دیئے ،اور بعض پودے ساٹھ فیصد سے زیادہ اور بعض نے تیس فیصد سے زائد بیج دئیے۔ میری باتوں پر کان دھر نے والے لوگوں نے ہی غور سے سنا۔”
(مرقس۴:۱۰-۱۲؛ لوقا ۸:۹-۱۰)
10 تب شاگرد یسوع کے پا س آکر پوچھنے لگے“آپ تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو کیوں تعلیم دیتے ہیں؟”۔
11 یسوع نے کہا، “خدا کی بادشاہت کی پو شیدہ سچا ئی کو سمجھنے کی صرف تم میں صلا حیت ہے۔ اور ان پوشیدہ سچا ئی کو دیگر لوگ سمجھ نہیں پاتے 12 جس کو تھوڑا علم و حکمت دی گئی ہے وہ مزید علم حا صل کر کے علم و حکمت وا لا بنے گا۔ لیکن جو علم وحکمت سے عا ری ہو گا۔ وہ اپنے پاس کا معمو لی نام علم بھی کھو دے گا۔ 13 اسی لئے میں ان تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو تعلیم دیتا ہوں۔ ان لوگوں کا حا ل یہ ہے کہ یہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھنے کے برا بر اور سن کر بھی نہ سننے کے برا بر ہیں۔ 14 ایسے لو گو ں کے بارے میں یسعیاہ نے جو کہا وہ سچ ہوا:
 
تم غورو فکر کر تے ہو، اور سنتے ہو
لیکن تم سمجھتے نہیں
حا لا نکہ تم دیکھتے ہو
لیکن جو کچھ تم دیکھتے ہو اس کے معنی تم سمجھتے نہیں ہو۔
15 ہاں ان لوگوں کے ذہن کند ہو گئے ہیں اور کان بہرے ہو گئے ہیں اور آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے۔
وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی نہ دیکھنے وا لوں کی طرح
اور اپن کانوں سے سن کر بھی نہ سننے والوں کی طرح
اور دل رکھتے ہوئے بھی نہ سمجھ میں آنے وا لوں کی طرح
میری طرف متوجہ نہ ہو نے والوں کی طرح
اور میری طرف سے شفا ء نہ پا نے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ یسعیاہ ۶:۹-۱۰
 
16 تم تو قابل مبارک باد ہو۔ اپنے سامنے نظر آنے والے واقعات اور سنے جانے والے حالات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ 17 میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جو کچھ تم ابھی دیکھتے ہو اسے بہت سارے نبی اور بہت سارے راستباز لوگ دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور کئی نبیوں اور نیک لوگوں نے وہ باتیں سننی چاہیں جو تم سن رہے ہو لیکن انہوں نے کبھی نہیں سنیں
(مرقس۴:۱۳-۲۰؛ لوقا ۸:۱۱۔۱۵)
18 “ایسی صورت میں کسان کے متعلق کہی گئی تمثیل کے معنی سنو۔
19 سڑک کے کنارے میں گر نے والے بیج سے مرا د کیا ہے ؟راستے کے کنارے گرے بیج اس آدمی کی مانند ہیں جو آسمانی بادشاہت کے متعلق تعلیمات کو سن رہا ہے لیکن سمجھ نہیں رہا ہے۔ اسکو نہ سمجھنے والا انسان ہی راستے کے کنارے گرے ہو ئے بیج کی طرح ہے۔ برا شخص آکر اس آدمی کے دل میں بوئے گئے بیجوں کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔
20 اور پتھریلی زمین میں گرے ہو ئے بیج سے مراد کیا ہے ؟ وہ بیج اس شخص کی مانند ہے جو بخوشی تعلیمات کو سنتا ہے اور ان تعلیمات کو بخوشی فوراً قبول کر لیتا ہے۔ 21 لیکن وہ آدمی جو کلام کو اپنی زندگی میں مستحکم نہیں بنا تا اور وہ اس کلام پر ایک مختصر وقت کے لئے عمل کرتا ہے۔ اور اس کلام کو قبول کر نے کی وجہ سے خود پر کو ئی تکلیف یا مصیبت آتی ہے تو وہ اسکو جلد ہی چھوڑ دیتا ہے۔
22 “خار دار جھا ڑیوں کے بیچ میں گر نے والے بیج سے کیا مراد ہے تعلیم کو سننے کے بعد زندگی کے تفکّرات میں اور دولت کی محبت میں تعلیم کو اپنے میں پر وان نہ چڑھا نے والا ہی خار دار زمین میں بیج کے گرنے کی طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعلیم اس آدمی کی زندگی میں کچھ پھل نہ دیگی۔
23 اور کہا کہ اچھی زمین میں گرنے والے بیج سے کیا مراد ہے ؟تعلیم کو سن کر اور اسکو سمجھ کر جاننے والا شخص ہی اچھی زمین پر گرے ہو ئے بیج کی طرح ہو گا۔ وہ آدمی پر وان چڑھکر بعض اوقات سو فیصد اور بعض اوقات ساٹھ فیصد اور بعض اوقات تیس فیصد پھل دیگا۔”
24 تب یسوع انکو ایک اور تمثیل کے ذریعہ تعلیم دینے لگے۔ وہ یہ کہ“ آسمان کی بادشاہت سے مراد ایک اچھے بیج کو اپنے کھیت میں بونے والے ایک کسان کی طرح ہے۔ 25 اس رات جب کہ سب لوگ سو رہے تھے تو اسکا ایک دشمن آیا اور گیہوں میں گھاس پھوس کو بودیا۔ 26 جب گیہوں کا پو دا نشو نما پا کر دانہ دار بن گیا تو اسکے ساتھ گھا س پھوس کے پو دے بھی بڑھنے لگے۔ 27 تب اس کسان کے خادم نے اسکے پاس آکر دریافت کیا کہ تو اپنے کھیت میں اچھے دانوں کو بویا۔ مگر وہ گھاس پھوس کا پو دا کہاں سے آ گیا ؟
28 اس نے جواب دیا، “یہ دشمن کا کام ہے تب ان خادموں نے پو چھا کہ کیا ہم جاکر اس گھاس پھوس کے پو دے کو اکھاڑ پھینکیں۔
29 “اس آدمی نے کہا کہ ایسا مت کرو کیوں کہ تم گھاس پھوس کو نکالتے وقت گیہوں کو بھی نکال پھینکو گے۔ 30 فصل کی کٹا ئی تک گوکھر و دانے اور گیہوں دونوں کو ایک ساتھ اگنے دو۔ فصل کی کٹائی کے وقت میں مزدوروں سے کہتا ہو کہ پہلے گھا س پھوس بیجوں کو جمع کرو اور جلانے کے لئے ان کے گٹھے باندھ دو اور پھر اسکے بعد گیہوں کو یکجا کر کے اسکو میرے گودام میں رکھو-”
(مرقس۴:۳۰-۳۴؛ لوقا۱۳:۱۸-۲۱)
31 تب یسوع نے ایک اور تمثیل لوگوں سے کہی “آسما نی باد شاہت را ئی کے دا نے کے مشا بہ ہے۔ کسی نے اپنے کھیت میں اس کی تخم ریزی کی۔ 32 وہ ہر قسم کے دانوں میں بہت چھو ٹا دانہ ہے۔ اور جب وہ نشو نما پا کر بڑھتا ہے تو کھیت کے دوسرے درختوں سے لمبا ہو تا ہے۔ جب وہ درخت ہو تا ہے تو پرندے آکر اس کی شاخوں میں گھونسلے بناتے ہیں۔”
33 پھر یسوع نے لوگوں سے ایک اور تمثیل کہی “آسما نی بادشاہت خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے روٹی پکا نے کے لئے ایک بڑے برتن جسمیں آٹا ہے اور اس میں خمیر ملا دی ہے۔ گو یا وہ پورا آٹا خمیر کی طرح ہو گیا ہے۔”
34 یسوع ان تمام باتوں کو تمثیلوں کے ذریعے بیان کر نے لگے۔ جب بھی وہ تعلیم وتلقین کر تے تو تمثیلوں کے ذریعہ ہی سمجھا تے۔ 35 نبی کی کہی ہو ئی یہ بات مع تمثیلوں کے اس طرح پو ری ہوئی:
 
“میں تمثیلوں کا استعما ل کر کے کلا م کرو نگا،
میں ان باتوں کو جن پر دنیا کے وجود سے اب تک پر دے پڑے ہیں بیان کرونگا۔” زبور ۷۸:۲
36 تب یسوع لوگوں کو چھوڑ کر گھرچلے گئے۔ انکے شاگرد انکے قریب گئے اور ا ن سے کہا،” گو کھر و بیجوں سے متعلق تمثیل ہم کو سمجھا ؤ۔”
37 یسوع نے جواب دیا ، اس طرح کھیت میں اچھے قسم کے بیجوں کی تخم ریزی کر نے وا لا ہی ابن آدم ہے۔ 38 کھیت یہ دنیا ہے۔ اچھے بیج ہی آسما نی بادشاہت میں شا مل ہو نے وا لے خدا کے بچے ہیں اور بر ے وبد کا روں سے رشتے رکھنے وا لے ہی وہ گو کھر وکے بیج ہیں۔ 39 کڑ وے بیج کو بو نے وا لا دشمن ہی وہ شیطا ن ہے۔ فصل کی کٹا ئی کا مو سم ہی دنیا کا اختتام ہے اور اس کو جمع کر نے وا لے مز دور ہی خدا کے فرشتے ہیں۔
40 “کڑ وے دانوں کے پودوں کو اکھا ڑ کر اس کو آ گ میں جلا دیتے ہیں اور دنیا کے اختتا م پر ہو نے وا لا یہی کام ہے۔ 41 ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔اور اس کے فرشتے گنا ہوں میں ملوث برے اور شر پسند لو گوں کو جمع کریں گے۔ اور وہ انکو اس کی بادشاہت سے باہر نکال دیں گے۔ 42 فرشتے ان لوگوں کو آ گ میں پھینک دیں گے۔اور وہاں وہ تکلیف سے رو تے ہوئے اپنے دانتوں کو پیستے رہیں گے۔ 43 تب اچھے لوگ سورج کی مانند چمکیں گے۔ وہ اپنے باپ کی بادشا ہی میں ہو ں گے۔ میری باتوں پر توجہ دینے والے لوگو غور سے سنو۔
44 “آسما نی بادشاہت کھیت میں گڑے ہو ئے خزا نے کی مانند ہے۔ایک دن کسی نے اس خزا نے کو پا لیا۔ او ربے انتہا مسر ّت وخوشی سے اس کو کھیت ہی میں چھپا کر رکھ دیا۔ تب پھر اس آدمی نے اپنی سا ری جا ئیداد کو بیچ کر اس کھیت کو خرید لیا۔
45 “آسما نی بادشاہت عمدہ اور اصلی موتیوں کو ڈھونڈ نے وا لے ا یک سوداگر کی طرح ہے جو قیمتی موتیوں کی تلا ش کر تا ہے۔ 46 ایک دن اس تا جر کو بہت ہی قیمتی ایک مو تی ملا۔تب وہ گیا اور اپنی تمام جائیداد کو فروخت کر کے اس موتی کو خرید لیا۔
47 “آسما نی بادشاہت سمندر میں ڈالے گئے اس مچھلی کے جال کی طرح ہےجس میں مختلف قسم کی مچھلیاں پھنس گئیں۔ 48 تب وہ جال مچھلیوں سے بھر گیا۔ مچھیرے اس جال کو جھیل کے کنا رے لائے اور اس سے اچھی مچھلیاں ٹوکریوں میں ڈال لیں اور خراب مچھلیوں کو پھینک دئیے۔ 49 اس دنیا کے اختتا م پر بھی ویسا ہی ہوگا۔فرشتے آئیں گے اور نیک کا روں کو بد کاروں سے الگ کریں گے۔ 50 فرشتے برے لوگوں کو آ گ کی بھٹی میں پھنک دیں گے۔ اس جگہ لوگ روئیں گے۔درد وتکلیف میں اپنے دانتوں کو پیسیں گے۔”
51 یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا، “کیا تم ان تمام باتوں کو سمجھ گئے ہو؟” شاگردوں نے جواب دیا “ہم سمجھ گئے ہیں”
52 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا،“ آسما نی باد شاہت کے بارے میں تعلیم دینے وا لا ہر ایک معلم شریعت ما لک مکان کی طرح ہوگا جو پرانی چیزو ں کو اس گھر میں جمع کر کے ان کو پھر باہر نکا لے گا۔”
(مرقس۶:۱-۶؛ لوقا۴:۱۶-۳۰)
53 یسوع ان تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دینے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ 54 تب وہ اپنے گاؤں گئے۔یسوع جب یہودی عبادت گاہ میں تعلیم دے رہے تھے تو لوگ تعجب کر نے لگے۔آپس میں کہنے لگے “یہ سوچ،سمجھ،حکمت،علم اور معجزے دکھا نے کی قوت کہاں سے پا ئی ہے؟ 55 یہ تو صرف ایک بڑھئی کا بیٹا ہے۔ اور اس کی ماں مریم ہے۔یعقوب ،یوسف اور شمعون ان کے بھا ئی ہیں۔ 56 اور اس کی سب بہنیں ہما رے پاس ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے کہ ایسے میں یہ حکمت اور معجزے دکھا نے کی طا قت کہاں سے پا ئی ہے؟” 57 اس کو کسی نے قبول نہ کیا۔
یسوع نے ان سے کہا، “دوسرے لوگ نبی کی تعظیم کر تے ہیں لیکن نبی کے گاؤں کے لوگ اور اس کے خاندان کے افرادعزت نہیں دیتے۔” 58 چونکہ ان لوگوں میں ایمان نہ ہو نے کی وجہ سے اس نے وہاں کئی معجزے نہیں دکھا ئے۔
1:16+جس1:16کے معنی مقدس پانی(مسیح) یا خدا کا منتخبہ۔1:18+یہ1:18خدا کی روح، مسيح کي روح، اور تسلي دينے والي روح بھي کہلاتي ہے۔ اور يہ روح خدا اور مسيح کے ساتھ دنیا میں رہنے والے لوگوں کے درمیان خدا کا کام کر تي ہے۔1:20+داؤدکے1:20خاندان سے آنے والا ۔ داؤد اسرائیل کا دوسرا بادشاہ تھا، اور مسیح کے پیدا ہونے کے ایک ہزار سال قبل بادشاہ تھا۔1:21+یسوع1:21نام کے معنی ہیں “نجات۔”2:3+ہیرو2:3(عظيم) يہوداہ کا پہلا حکمراں، ۴۴۰ قبل مسیح۔2:15+ہوسیع2:15۱:۱۱2:23+ایک2:23شخص ناصرت شہر کا رہنے والا۔ اس نام کا ممکنہ معنی “شاخ” ہو سکتاہے۔( دیکھیں یسعیاہ ۱:۱۱3:7+یہ3:7فریسی یہودی مذہبی گروہ ہے۔3:7+ایک3:7اہم یہودی مذہبی گروہ جو پرا نے عہد نامے کی صرف پہلے کی پانچ کتابوں کو ہی قبول کیا ہے اور کسی کے مر جانے کے بعد اسکا زندہ ہو نا نہیں مانتے۔3:10+جو3:10لوگ یسوع کو تسلیم نہیں کئے وہ “درختوں” کی طرح ہیں اور ان کو کاٹ دیا جائے گا۔3:12+یوحنّا3:12کے کہنے کا مطلب ہے یسوع اچھے لوگوں کو برے لوگوں میں سے الگ کر دیتا ہے۔3:13+یہ3:13یونانی لفظ ہے جسکے معنی’ ڈبونا ،یا آدمی کو دفن کرنا یا کوئی چیز پانی کے نیچے۔4:4+مقدس4:4تحریریں، قدیم عہد نامہ۔4:23+یہودی4:23عبادت گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں یہودی لوگ عبادت کرنے، تحریروں کو پڑھنے اور دوسرے عام مجمع لئے جمع ہوتے ہیں۔4:25+یونانی4:25لفظ “ڈکپُلس” یہ علاقہ گلیل تالاب کےمشرق کی طرف ہے۔ ایک زمانے میں یہاں دس گاؤں تھے۔5:33+خروج5:33۱۲:۱۹، گنتی ۲:۳۰، استثناء ۲۱:۲۳6:13+چند6:13یونانی نسخوں میں اس آیت کو شامل کیا گیا ہے۔“کیوں کہ حکومت، طاقت اور جلال ہمیشہ ہمیشہ تیرا ہی رہےگا۔” آمین۔8:20+یہ8:20نام یسوع خود اپنے لئےة استعمال کیا10:4+یہ10:4سیاسی گروہ یہودیوں سے تعلق رکھتاہے۔11:21+یہ11:21دونوں شہر گلیل تالاب کے قریب واقع ہيں جہاں یسوع لوگوں کو منادی دیا کر تا تھا۔11:21+ان11:21گاؤں کے نام ہیں جہاں بُرے لوگ رہا کرتے تھے۔