8
کاش ! تم میرے چھو ٹے بھا ئی ہوتے جس نے میری ماں کی چھا تیوں سے دودھ پیا۔
اگر میں تجھ سے وہیں باہر مل جاتی
تو میں تمہارا بوسہ لے لیتی،
اور کوئی شخص مجھے حقیر نہ جانتا۔
میں تجھ کو اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی،
اس ماں کے پاس جس نے مجھے تعلیم دی۔
میں مسالے دار مئے اور اپنے اناروں کا رس
تم کو پینے کے لئے دیتی
میرے سر کے نیچے میرے محبوب کا بایاں ہاتھ ہے،
اور ا س کا داہنا ہاتھ مجھے گلے سے لگا تا ہے۔
اے یروشلم کی بیٹیو! مجھ سے وعدہ کرو،
محبت کو مت جگاؤ
محبت کو مت اکساؤ جب تک میں تیار نہ ہو جاؤں۔
یہ عورت کون ہے
جو بیابان سے اپنے محبوب پر جھکی ہوئی آرہی ہے ؟
میں نے تجھے سیب کے درخت تلے جگایا تھا
جہاں تیری ولادت ہوئی ہے
جہاں تیری والدہ نے تجھے جنم دیا۔
مہر کی مانند مجھے اپنے دل پر
اور مُہر کی مانند اپنے بازو پر لگا کر رکھ
کیوں کہ محبت اتنی ہی زبردست ہے جتنی موت،
اور جذبہ اتنا سخت ہے جتنی کہ قبر۔
اسکے شعلے آ گ کے شعلوں کی طرح ہیں،
ایک زبردست آ گ کی طرح ہے۔
محبت کی آ گ کو پانی نہیں بجھا سکتا
محبت کو سیلاب ڈوبا نہیں سکتا
اگر آدمی محبت کے لئے اپنا سب کچھ دے ڈالے
تو کیا اسے ایسا کرنے کے لئے حقیر سمجھا جائے گا۔
ہماری ایک چھو ٹی بہن ہے
جس کی چھا تیاں ابھی ابھری نہیں ہیں ،
جس دن اس کی سگائی ہو
ہم کو کیا کرنا چاہئے ؟
اگر وہ دیوار ہو تو
ہم اس پر چاندی کا برج بنائیں گے
اور اگر وہ دروازہ ہو تو
ہم اس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔
10 میں دیوار ہوں
اور میری چھا تیاں مینار جیسی ہیں
اور اس طرح میں انکی آنکھوں میں انکی مانند ہو گئی جو کہ امن اور صبر لاتی ہے۔
11 بعل ہامون میں سلیمان کا تاکستان تھا۔
اس نے اپنے تاکستان کو باغبان کے سپرد کیا۔
ہر باغبان اس کے پھلوں کے بدلے میں چاندی کے ایک ہزار مثقال لا تا تھا۔
12 12
لیکن سلیمان! میرا اپنا تاکستان میرے اپنے لئے ہے۔ اے سلیمان! میرے چاندی کے ایک ہزار مثقال سب تو ہی رکھ لے اور یہ دو سو مثقال ان لوگوں کے لئے ہیں۔
جو پھلوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔
ليکن میرا اپنا تاکستان میرے لئے ہے۔
13 تو اے بوستان میں رہنے والی
تیری آواز میرے دوست سن رہے ہیں۔
مجھے بھي اس کو سننے دے۔
14 اے میرے محبوب!تو اب جلدی کر
اور تم خود ایک غزال یا ہرن کے بچّہ کی مانند ہو جو خوشبودار پہا ڑوں پر ہے۔