نجات کے بارے سوالات

سوال: یا پھر نجات کا رستہ کیا ہے؟

جواب:
کیا آپ بھوکے هیں؟ جسمانی طور پر نهیں، کیا آپ اپنی زندگی میں کسی اور چیز کی زیاده بھوک رکھتے هیں؟کیا کوئی چیز آپ کے اندر هیں جو کبھی مطمن نظر نهیں آتی؟ اگرہا ں !تو یسوع رسته هے یسوع نے کها، "زندگی کی روٹی میں هوں۔ جو میرے پاس آئے وه هرگز بھوکا نه هوگا، اور جو مجھ پر ایمان لائے وه کبھی پیاسا نه هوگا"﴿یوحنا 6باب35آیت﴾۔

کیا آپ پریشان هیں؟ کیا آپ نے کبھی اپنی زندگی کا رسته اور مقصد معلوم کرنا چاها هے؟ کیا کبھی آپ کو ایسا لگا که کسی نے تمام روشنیاں بند کردیں ہو اور آپ کو بٹن نهیں مل رها؟ اگرہاں ! تو یسوع علان کرتا ہے کہ میں رستہ ہے ، "دنیا کا نور میں هوں ۔ جو کوئی میری پیروی کرتا ہے کبھی بھی اندھیرےمیں نه چلے گا بلکه زندگی کا نور پائے گا "﴿یوحنا 8باب12آیت﴾۔

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا هے که جیسے آپ کسی قید میں هیں ؟ کیا آپ بهت سے دروازے آزما چکے ہیں ؟ اور آپ نے پایا که ان کے پیچھے کچھ بھی نهیں اور وه بے معنی هیں؟ کیا آپ ایک بھرپور زندگی میں داخل هونے کے لیے رسته تلاش کررهے هیں؟ اگر ایسا هے تو یسوع رسته هے یسوع اعلان کرتا هے، "دروازه میں هوں؛ جوکوئی مجھ سے داخل هو تو نجات پائیگا۔ اور اندر باهر آیا جایا کریگا اور چارا پائیگا"﴿یوحنا10باب9آیت﴾۔

کیا دوسرے لوگ آپ کو همیشه نیچا دکھاتے هیں؟ کیا آپ کے تعلقات بهت هلکے اور بے معنی سے هیں؟ کیا آپ کو ایسا لگتا هے که هر کوئی آپ سے فائده اُٹھانے کی کوشش کرتا هے؟ پس اگر ایسا هے ، تو یسوع رسته هے۔ یسوع نے فرمایا، "اچھا چرواها میں هوں۔ اچھا چرواها بھیڑوں کے لیے اپنی جان دیتا هے ....، اچھا چرواها میں هوں ۔میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میر ی بھیڑیں مجھے جانتی ہیں۔﴿یوحنا10باب11اور14آیت﴾۔

کیا آپ حیران هیں که اس زندگی کے بعد کیا هونیوالا هے ؟ کیا آپ زندگی میں ایسی چیزوں کے لیے کوشش کرتے رهیں هیں جو صرف سڑتی هیں اور ان کو زنگ لگ جاتا هے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا که زندگی کا کوئی مطلب هے ؟ کیا آپ مرنے کے بعد زنده رهنا چاهتے هیں؟ پس اگرایسا ہے ۔تو یسوع رسته هے ۔یسوع اعلان کرتا هے ، "یسوع نے کها قیامت اور زندگی میں هوں ۔ جو مجھ پر ایمان لاتا هے گو وه مر جائے تو بھی زنده رهے گا۔ اور جو کوئی زنده هے اورمجھ پر ایمان لاتا هے وه ابد تک کبھی نه مریگا"﴿یوحنا11باب25تا26آیت﴾۔

رسته کیا هے؟ سچائی کیا هے ؟زندگی کیا هے ؟ یسوع نے جواب دیا، "راه اور حق اور زندگی میں هوں ۔ کوئی میرے وسیله کے بغیر باپ کے پاس نهیں آتا"﴿یوحنا14باب6آیت﴾۔

جو بھوک آپ محسوس کرتے هیں وه روحانی بھوک هے، اور یہ بھوک صرف یسوع کے ذریعے هی مٹ سکتی هے۔ صرف یسوع هی هے جو تاریکی کو دور کر سکتا هے۔ یسوع تسلی بخش زندگی کا دروازه هے۔ یسوع دوست اور چرواها هے جسے آپ تلاش کررهے هیں۔ یسوع زندگی هے اس دنیا میں اور آنے والی دنیا میں ۔ یسوع نجات کا رسته هے !

آپکی بھو ک کی وجه،اور آپ کے تاریکی میں گم ہونے کی وجه، اسلئیے آپ زندگی کے اصل معنی تلاش نهیں کر پا رهے، کیااِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خدا سے جُدا ہیں۔ کلامِ مقدس همیں بتاتی هے که هم سب نے گناه کیا اور اس وجه سے خدا سے دور هوگئے ﴿واعظ7باب20آیت؛ رومیوں3باب23آیت﴾۔ آپ اپنی زندگی میں جو خالی پن محسوس کرتے هیں وه خدا هے جو آپ کی زندگی میں موجود نهیں۔ هم خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ گناه کی وجه سے ، همارا تعلق ختم هو گیا۔ اس سے زیاده بُرا یه هوا که گناه کی وجه سے هم همیشه که لیے خدا سے الگ هو گئے، اور اس میں اور آنے والی زندگی میں ﴿رومیوں 6باب23آیت؛ یوحنا3باب36آیت﴾۔

یه مشکل کیسے حل هو سکتی ہے ؟ یسوع رسته هے ! یسوع نے همارے گناه اپنے اوپر لے لیے ﴿2۔کرنتھیوں5باب21آیت﴾۔ یسوع هماری جگه مُوا ﴿رومیوں5باب8آیت﴾، وه سزا سهی جس کے هم حقدار هیں۔ تین دن بعد ، یسوع مردوں میں سے جی اُٹھا، اپنی فتح کو گناه اور موت پر ثابت کیا ﴿رومیوں6باب4تا5آیت﴾۔ اس نے یه کیوں کیا؟ یسوع نے خود هی اس کا جواب دیا، "اس سے زیاده محبت کوئی شخص نهیں کرتا که اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے دے دے"﴿یوحنا15باب13آیت﴾۔ یسوع مُوا تاکه هم زنده ره سکیں۔ اگر هم اپنا ایمان یسوع پر رکھتے هیں اور ایمان رکھتے هیں که اس نے موت کے ذریعے همارے گناهوں کی قیمت ادا کی همارے تمام گناه معاف هو گئے اور دُھل گئے هیں۔ تب هماری روحانی بھوک کو تسلی ملے گی۔ روشنی دوباره واپس آ جائیگی۔تب هم بھرپور زندگی تک رسائی حاصل کریں گے۔ هم اپنے سچے دوست اور اچھے چرواهے کو جانیں گے۔ هم جانیں گے کے هم مرنے کے بعد زندگی رکھتے هیں مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع کے ساتھ آسمان پر همیشه کی زندگی کے لیے

کیونکه خدا نے دنیا کے ساتھ ایسی محبت رکھی که اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا که جو کوئی اس پر ایمان لائے هلاک نه هو بلکه همیشه کی زندگی پائے"﴿یوحنا3باب 16آیت﴾۔

اگر ایسا ہے، تو برائے مہربانی دبائیں "آج میں نے مسیح کو قبول کرلیا"نیچے دئیے گئے بٹن کو

سوال: كيا نجات صرف ايمان کے ذريعے هےياپھر ايمان كے ساتھ اعمال بھي ضروری ہیں؟

جواب:
یه شاید مسیحی مذهب کا سب سے اهم سوال هے۔ اس سوال کی وجه اصلاح عمل هے یه پروٹسٹنٹ کلیسیا اور کتھولک کلیسیا کے درمیان فرق هے۔ یه سوال ایک بنیادی فرق هے کلام مقدس کے مطابق مسیحیت کے درمیان اور زیاده تر "مسیحی"بدعتی مسالک کے درمیان۔ کیا نجات صرف ایمان کے ذریعے هے، یا ایمان کے ساتھ عمل بھی؟ کیا میں صرف یسوع پر ایمان لانے سے نجات پا سکتا هوں، یا پھر کیا میں یسوع پر ایمان رکھوں اور اچھے کام بھی کروں؟

سوال صرف ایمان یا ایمان کے ساتھ عمل اس وقت مشکل هو جاتا ہے جب اس کو کلامِ مقدس کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ موازنه کریں رومیوں3باب28آیت، 5باب1آیت اور گلتیوں3باب24آیت کے ساتھ یعقوب2باب24آیت۔ کچھ فرق هے جیسے پولوس ﴿نجات صرف ایمان سے هے﴾اور یعقوب ﴿نجات ایمان اور عمل سے هے﴾۔ حقیقت میں ، پولوس اور یعقوب مکمل طور پر ایک دوسرے سے نامتفق نهیں۔ صرف ایک نقطه هے نااتفاقی کا که کچھ لوگ ایمان اور عمل کے اس تعلق کے درمیان فرق کو بڑھا چڑھا کربیان کرتے هیں۔ پولوس اپنی رائے میں صرف ایمان هی کو واجب گردانتا هے﴿افسیوں2باب8تا9آیت﴾ جبکه یعقوب ایمان کے ساتھ عمل کی حمایت کرتا نظر آتا هے۔ اس نمایاں مسئلے کا حل اس کی پڑتال کرنے سے ملتا هے که حقیقت میں یعقوب کس کے بارے میں بات کر رها هے ۔ یعقوب اس نظریے کو جھوٹا ثابت کررها هے جو شخص ایمان تو رکھتا هے لیکن اس میں کچھ اچھے اعمال نهیں﴿یعقوب2باب17تا 18آیت﴾۔ یعقوب اس نقطه پر زور دے رها هے که مسیح پر اصل ایمان اچھے اعمال کو پیدا کرتا هے﴿یعقوب 2باب20تا 26آیت﴾۔ یعقوب یه نهیں کهه رها که ایمان کے ذریعے عمل کا جواز پیش کیا جائے، لیکن اس کے برعکس وه شخص حقیقت میں سچا هے جو ایمان کے ذریعے اپنی زندگی میں اچھے اعمال رکھتا هے۔ اگر کوئی شخص ایماندار هونے کا دعویٰ کرتا هے، لیکن اس کے زندگی میں اچھے اعمال نهیں تو پھر وه غالباً مسیح پر حقیقی ایمان نهیں رکھتا ﴿یعقوب 2باب14آیت، 17آیت، 20آیت، 26آیت﴾۔

پولوس بھی ایسے هی اپنی تحریروں میں کهتا هے۔ اچھے پھلدار ایماندار اپنی زندگیاں اس فهرست کے مطابق گزاریں جیسے گلتیوں5باب22تا 23آیت۔ ہمیں ایمان کے زریعے نجات ملتی ہے نہ کہ اعمال سےاِس آیت کے فوراً بعد ﴿افسیوں2باب8تا9آیت﴾، پولوس همیں خبردار کرتا هے که هم اچھے عمل کرنے کے لئے پیدا هوئے تھے ﴿افسیوں2باب10آیت﴾۔ پولوس امید رکھتا هے زیاده تبدیل شده زندگی کی جیسے یعقوب نے کها، "اس لیے اگر کوئی مسیح میں هے، تو وه نیا مخلوق هے۔ پرانی چیزیں جاتی رهیں۔ دیکھو وه نئی هوگئیں"﴿2۔کرنتھیوں5باب17﴾ یعقوب اور پولوس نجات کے لئے ایک دوسرے سے نامتفق نهیں هیں۔ وه دونوں ایک هی نقطه رکھتے هیں مختلف تناظر سے۔ پولوس سادگی سے زور دیتا تھا که صرف ایمان کے ذریعے جبکه یعقوب زور دیتا ہے که مسیح پر ایمان اچھے اعمال پیدا کرتا هے۔

اور بائبل مقدس کی تعلیمات کے مطابق ہم ایمان سے نجات پاتے ہیں اور اچھے کام اُس نجات کی شکر گزاری کے طور پر کرتے ہیں جو ہمیں مسیح یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کرنے سے ملی۔ کیونکہ مسیح یسوع پر ایمان لانے کے بعد ہماری پرانی سوچیں، فکریں، خصلیتیں اور زندگی یکسرتبدیل ہو جاتی ہیں اور ہم ایک نئے انداز میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اِسی لیے بائبل مقدس کی تعلیم اِسے نئی پیدائش کا نام دیتی ہے۔


سوال: کیا ايك بار نجات هميشه كے لئے نجات؟

جواب:
ایک بار کوئی شخص جب نجات حاصل کر لیتا هے توکیا وه همیشه کے لیے نجات پا لیتا هے؟ جب لوگ مسیح کو اپنے نجات دهنده کے طور پر جان لیتے هیں، تو وه خداکے ساتھ ایک رشتے میں منسلک ہو جاتے هیں جو ان کی ابدی نجات کو محفوظ کرنے کی ضمانت دیتا هے۔ کلامِ مقدس کے بهت سے حوالے اس حقیقت کا اعلان کرتے هیں، ﴿ا﴾رومیوں8باب30آیت اعلان کرتا هے، "اور جن کو اس نے پهلے مقرر کیا ان کو بلایا بھی اور جن کو بلایا ان کو راستباز بھی ٹھهرایا اور جن کو راستباز ٹھهرایاانکو جلال بھی بخشا"۔ یه آیت بتاتی هے که جس لمحے خدا همیں چنتا هے، یه ایسے هی هے جیسے هم آسمان میں اسکے موجودگی میں اسکی تمجید کرتے هیں۔ یهاں پر کچھ بھی نهیں جو ایک ایماندار کو باز رکھ سکے جلالی هونے سے کیونکه خدا پهلے هی سے اسے فردوس میں رکھنے کا اراده رکھتا هے۔ ایک بار جب ایک شخص راستباز ٹھهرا، تو اسکی نجات کی ضمانت دے دی گئی وه ایسے هی محفوظ هے جیسے اگر وه پهلے فردوس میں جلالی تھا۔

﴿ب﴾پولوس رومیوں 8باب33تا34آیت میں دو فیصله کن سوالات پوچھتاهے ، "خدا کے برگزیدوں پر کون نالش کریگا؟ خدا وه هے جو ان کو راستباز ٹھهراتا هے۔ کون هے جو مجرم ٹھهرائے گا؟ مسیح یسوع وه جو مر گیابلکه مردوں میں سے بھی جی اُٹھا اور خدا کی دهنی طرف هے اور هماری شفاعت بھی کرتا هے"۔ خدا کے برگزیدوں پر کون نالش کریگا؟ کوئی نهیں کریگا کیونکه مسیح همارا مشیر هے۔ کون هم کو مجرم ٹھهرائے گا؟ کوئی نهیں، کیونکه مسیح جو همارے لئے مُوا، جو همارے لئے رد کیا گیا ۔ هم مشیر اور منصف دونوں رکھتے هیں جیسے همارا نجات دهنده۔

﴿پ﴾ایماندارروحانی طور پر دوباره پیدا هوتے هیں﴿پھر پیدا هونا﴾جب وه ایمان لاتے هیں ﴿یوحنا3باب3آیت؛ ططس3باب5آیت﴾۔ ایک مسیحی کے لئے اپنی نجات کھو دینا، ایسے هی ہے که دوباره پیدا هی نهیں هوا هو گا۔ کلامِ مقدس میں کوئی ایسی شهادت نهیں ملتی که نئی پیدائش کھو دی جا سکتی هے۔ ﴿ت﴾پاک روح تمام ایمانداروں کے اندر رهتا هے ﴿یوحنا14باب17آیت؛ رومیوں8باب9آیت﴾ اور مسیح کے جسم میں تمام ایمانداروں کو بپتسمه دیتا هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب13آیت﴾۔ ایماندار کے لئے غیر نجات یافته بننا ایسے هی جیسے وه "باهر نکال"دئیے گئے اور مسیح کے جسم سے الگ کردئیے گئے ہوں۔

﴿ٹ﴾یوحنا3باب15آیت بیان کرتی هے که جوکوئی یسوع مسیح پر ایمان لاتا هے "ابدی زندگی پائے گا"۔ اگر آپ آج مسیح پر ایمان لاتے هیں اور ابدی زندگی رکھتے هیں، لیکن کل کھو دیتے هیں، پھر یه کبھی بھی ابدی نهیں تھی۔ تاهم اگر آپ اپنی نجات کھو دیتے هیں، تو کلامِ مقدس میں ابدی زندگی کا وعده غلط هوگا۔ ﴿ث﴾سب سے زیاده فیصله کن دلیل میرے خیال میں کلامِ مقدس خود بهتر بیان کرتا هے، "کیونکه مجھ کو یقین هے که خدا کی جو محبت همارے خداوند مسیح یسوع میں هے اس سے هم کو نه موت جدا کرسکیگی نه زندگی۔ نه فرشتے نه حکومتیں۔ نه حال کی نه استقبال کی چیزیں۔ نه قدرتیں نه بلندی نه پستی نه کوئی اور مخلوق"﴿رومیوں8باب38تا39آیت﴾۔ یاد رکھیں ایک هی خدا نے آپ کو نجات دی هے اور ایک هی خدا آپ کو بچائے گا۔ ایک بار هم نجات پاتے هیں تو همیشه کے لئے نجات پاتے هیں۔ هماری نجات یقینا ابدی طور پر محفوظ هے.


سوال: كيا ابدي حفاظت كلامِ مقدس كے مطابق هے؟

جواب:
جب لوگ مسیح کو اپنا نجات دهنده کے طور پر جانتے هیں، وه خدا کے ساتھ ایک رشتے میں آ جاتے هیں جو ان کی ابدی حفاظت کی ضمانت هے۔ یهوداه 24آیت میں اعلان کرتا هے، "اب جو تم کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا هے اور اپنے پُرجلال حضور میں کمال خوشی کے ساتھ بے عیب کرکے کھڑا کرسکتا هے "۔ خدا کی قوت ایماندار کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتی هے۔ یه اسی کی وجه سے هے، هماری وجه سے نهیں، همیں اسکے پُرجلال حضور میں لاتی هے۔ هماری ابدی حفاظت اس بات کو ثبوت هے که خدا هماری نگهبانی کرتا هے، هم اپنی نجات خود سے برقرار نهیں رکھ سکتے۔

خداوند یسوع مسیح نے اعلان کیا، "اور میں انهیں همیشه کی زندگی بخشتا هوں اور وه ابد تک کبھی هلاک نه هونگی اور کوئی انهیں میرے هاتھ سے چھین نه لیگا۔ میرا باپ جس نے مجھے وه دی هیں سب سے بڑا هے اور کوئی انهیں باپ کے هاتھ سے نهیں چھین سکتا" ﴿یوحنا10باب28تا29﴾۔ یسوع اور باپ دونوں همیں اپنے هاتھوں میں مضبوطی سے پکڑتے هیں۔ باپ اور بیٹے دونوں کی گرفت سے کون همیں علیحده کرسکتا هے؟

افسیوں 4باب30آیت همیں بتاتی هے که ایمانداروں "پر مخلصی کے دن کے لئے مهر هوئی ہے"۔ اگر ایمانداروں کے پاس ابدی حفاظت نهیں هے ، تو مخلصی کے دن کے لئے مهر اصلی نهیں هوسکتی ، لیکن صرف گناه کرنے کے دن، خدا سے انکار کرنے کے دن، یا بے اعتقاد ۔ یوحنا 3باب15تا16آیت همیں بتاتی هے که جو کوئی بھی یسوع مسیح پر ایمان رکھتا هے"ابدی زندگی رکھتا هے"۔ اگر کسی شخص سے ابدی زندگی کا وعده کیا گیا تھا، لیکن پھر اس وعدے کو واپس لے لیا گیا، یه کبھی بھی "ابدی"وعده نه تھا۔ اگر ابدی حفاظت حقیقی نهیں هے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کلا مِ مقدس میں ابدی زندگی کا وعده غلط هو گا۔ جو کہ خدا کے الہام سے لکھے ہوئے کلام میں ممکن نہیں ہو سکتا۔

سب سے زبردست دلیل هے ابدی زندگی کے لئے رومیوں 8باب38تا39آیت میں، "کیونکه مجھ کو یقین هے که خدا کی جو محبت همارے خداوند مسیح یسوع میں هے اس سے هم کو نه موت جدا کرسکیگی نه زندگی۔ نه فرشتے نه حکومتیں۔ نه حال کی نه استقبال کی چیزیں۔ نه قدرتیں نه بلندی نه پستی نه کوئی اور مخلوق"۔ هماری ابدی حفاظت کی بنیاد خدا کی محبت هے یه ان کے لئے هے جو نجات پا چکے هیں۔ هماری ابدی حفاظت یسوع نے خریدی هے، باپ نے وعده کیا هے اور پاک روح نے مهر کی هے۔ اور خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے۔ ہم مکمل طور پر خدا پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اُس کی باتیں لاتبدیل ہیں اور اُس کے وعدے ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں


سوال: میں کس طرح اپنی نجات کا یقین کر سکتا ہوں ؟

جواب:
یوحنا5 باب 11سے لیکرI اگر آپ نجات یافتہ ہیں تو یقین دہانی کے لیے کس طرح جان سکتے ہیں ؟ 13 آیت پر غور کریں "اور وُہ گواہی یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اُس کے بیٹے میں ہے، جس کے پاس بیٹا ہے اُسکے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خُدا کا بیٹا نہیں اُس کے پاس زندگی بھی نہیں " وُہ کون ہے جس کے پاس بیٹا ہے؟ یہ وُہ ہیں جو اُس میں ایمان رکھتے ہیں اور اُسے قبول کرتے ہیں۔ (یوحنا 1:12) اگر آپ کے پاس مسیح ہے تو آپ کے پاس زندگی ہے عارضی زندگی نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی ۔

خُدا ہم سے ہماری نجات کی یقین دہانی چاہتا ہے ۔ ہم اپنی مسیحی زندگیا حیران ہوتے ہوئے اور پریشان ہوتے ہوے نہیں گزار سکتے ہیں چاہیے ہم نے سچی نجات پائں ہے یا نہیں ۔ اِس وجہ سے بائیبل نہیایت واضع نجات کا منصوبہ بتاتی ہے ۔ یسوع مسیح میں ایمان رکھو آپ نجات پاجاءو گے (یوحنا 3:16، اعمال 16:31) کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع نجات دہیندہ ہے، کہ وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے موا ؟ (رومیوں 5:8 کرنتھیوں5:12) کیا آپ نجات کے لیے اُس اکیلے پر بھروسہ کرتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ نجات یافتہ ہیں! یقین کا مطلب ہے تمام شکوک سے پرے رہینا) خُدا کا کلام دل سے قبل کرنے سے آپ ان شکوک کو پرے پھینک سکتے ہیں او یہی آپ ہمیشہ کی نجات کی حقیقیت اور اصیلیت ہے۔

یسوع بذاتِ خود ان کے بارے میں باضابطہ اعلان کرتا ہے جو اُس میں ایمان رکھتے ہیں۔ " اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہونگی اور کوئں انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔میں اور باپ ایک ہیں ۔ (یوحنا 28-29: 10) ہمیشہ کی زنگی صرف ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ ہمارے یقین کی بنیاد یسوع مسیح کے وسیلہ سے خُدا کی محبت پر ہے۔


سوال: لوگوں نے ہمارے گناہوں کے لئے یسوع کی مدت سے پہلے کس طرح نجات پائں ؟

جواب:
انسان کے پھینکے جانے سے لیکر نجات کی بنیاد ہمیشہ سے مسیح کی موت پر رہی ہے ۔ کوئں بھی چاہیے وہ مصلوبیت سے پہلے یا مصلوبیت کے وقت سے ہو دُنیا کی تاریخ کے ایک مرکزی واقعہ کے بغیر کبھی بھی نجات نہیں پائے گا۔ مسیح کی موت نے پرانے عہد نامے کے برگزیدوں کے ماضی کے گناہوں کا اور نئے عہد کے برگزیدوں کے مستقبل کے گناہوں کا کفارا ادا کیا

نجات کا تقاضا ہمیشہ سے اعمان رہا ہے نجات کے لیے کسی کے ایمان کا مدعا ہمیشہ سے خُدا ہی رہا ہے زبور نگار لکھتا ہے، " مبارک ہیں وُہ سب جن کا توکل اُس پر ہے" پیداءش ۱۵ باب اُسکی ۶ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ بھی دیکھیں) 4:3-8 ابرہام نے خدا پر ایمان رکھا اور یہ خُدا کے اُسے راستبازی کے نوازنے کے لیے کافی تھا (رومیوں پرانے عہِد نامے کا قربانی گزرانے کا نظام گناہ کو ختم نہیں کرتا تھا، جیسا کہ عبرانیوں ۱۰ باب اُسکی ا سے لیکر ۱۰ آیت ہمیں سکھاتیں ہیں تا ہم یہ اُس دن کی طرف اشارہ کرتی ہے جب خُدا کا بیٹا گناہ گار بنی نوؑع انسان کے لیے اپنا خون بہائے گا۔

وہ جو عرصہ دراز میں تبدیل ہو چکا ہے وہ اعماندار کے اعمان کا اطمینان ہے۔ کس پر ایمان رکھنا چاہیے اِ کے لیے خُدا کے تقاضے کی بنیاد مکاشفے کی معانی پر جو وہ نسل انسانی کو اِس دو تک دے چکا ہے ۔ یہ بتدریج بڑھنے والا مکاشفہ ہے ۔ آدم اِ س عہد پر ایمان رکھتا تھا کہ جو خُدا نے پیدائںش ۳ باب اُسکی ۱۵ آیت میں کیا کہ عورت کی نسل شیطان کو مفتوع کرے گی ۔ آدم اُس پر ایمان رکھتا تھا ۔ آدم نے اُسے نام سے پُکارا اُس نے اُسے حوا کا نام اور خداوند نے اُس کی قبولیت کا اشارہ کرتے ہوئے جلدی سے انہیں چمڑے کے کُرتوں سے ڈھانپ دیا ( 20دیا (آیت ) اِس نکتہ پر جو کہ سب آدم جانتا تھا بلکہ اِس پر ایمان بھی رکھتا تھا۔21 (آیت باب میں دیتا ہے ۔ 15 اور 12ابراہام خدا پر وعدوں کے مطابق رکھتا تھا اور نئے مکاشفہے پر جو خُدا پیداءش موسیٰ سے پہلے کوئں کلام نہیں لکھا گیا تھا لیکن نسل انسانی اِس کے لیے ذمہ دار تھی جو خُدا آشکار کر چکا تھا۔ تمام پرانے عہد نامے میں ایماندار نجات کی طرف آتے ہیں کیونکہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ کسی دن خُدا ان کے گناہ کے مسلہ کی فکر کرے گا ۔ آج اگر ہم ایمان رکھتے ہوئے پیچھے دیکھیں تو وہ صلیب پر ہمارے گناہوں )9:28،عبرانیوں 3:16کی فکر کر چکا ہے ۔ (یوحنا

مسیح کے دور کے ایمانداروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مصلوب وہنے اور دوبارہ جی اُٹھنے سے پہلے کے؟ کیا وہ ایمان رکھتے تھے؟ کیا وہ ان کے گناہوں کی خاطر مسیح کے صلیب پر مرنے کی اصل حقیقت کو سمجھتے تھے؟ ان کے پہلے ہی اپنے واعظ میں بتایا تھا۔ " یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقہوں کی طرف سے بہت دُکھ اٹھائے اور اس واعظ پر اس کے شاگردوں کا کیا ردِ عمل تھا؟ اِس پر پطرس اُسکو الگ لے جاکر ملامت کرنے لگا کہ اَے خداوند خُدا نہ کرے یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔" پطرس اور اُس کے دوسرے شاگرد مکمل سچائں نہیں جانگے تھے، لیکن وہ نجات یافتہ تھے کیونکہ وہ ایمان رکھتے تھے کہ خُدا ان کے گُناہ کے معاملے میں ان کی فکر کرے گا۔ وہ یہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ وہ اِسے آدم ابراہام ، موسیٰ یا داود سے بڑھ کر کس طرح پورا کرے گا لیکن وہ خُدا پر ایمان رکھتے تھے ۔

آج ہم مسیح کے جی اٹھنے سے پہلے کے لوگوں سے زیادہ مکاشفہ رکھتے ہیں ۔ ہم مکمل حقیقت جانتے ہیں ۔ "اگلے زمانہ میں خُدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے۔ اَس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم ) ہماری نجات کی بنیاد ابھی بھی مسیح کی موت پر ہے،ہمارا ایمان ابھی 1:1-2بھی پیدا کئے"۔(عبرانیوں خُدا ہی ہے ۔آج ہمارے لئے ہمارے ایمان کا مقصد یہ ہے کہ یسوع مسیح ہمارے گناہوں کے لئے مواٗ، وہ دفن ہوا ) 15:3-4اور تیسرے دن جی اُٹھا (۱ کرنتھیوں


سوال: اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا جنہیں ایک دفعہ بھی یسوع کے بارے میں سُننے کا موقع نہیں ملا؟ کیا خُدا اُس ایک شخص کو سزاوار ٹھہرائے گا جس نے کبھی بھی اُس کے بارے میں نہیں سُنا ہے؟

جواب:
تمام لوگ خُدا کے لیے تابع احتساب (ذمہ دار) ہیں خواہ انہوں نے " اُس کا کلام سُن رکھا ہو یا نا سُن رکھا ) اور لوگوں کے دِلوں میں اپنے آپ کو1:20 ہو۔ بائیبل ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا واضع طور پر فطرت میں (رومیوں ) ۔ مسلئہ یہ ہے کہ نسل انسانی گُنا گار ہے ، ہم سب خُدا کی Ecclesiasts 3:11ظہور پذیر بھی کر چکا ہے ۔ () ۔ اگر یہ خُدا کے فضل کے لیے1:21-23 رومیوں )اِس تعلیم کو رد کرتے ہیں اور اُس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ۔

نہیں ہے، ہمارے دِلوں پر گناہ آلودہ خواہشات پڑجائیں گی، ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ یہ دریافت کریں کہ اُس کے بغیر زندگی کتنی بے فائدہ اور مصیبت زدہ ہے۔ وُہ یہ اُن کے لیے کرتا ہے جو اُسے مسلسل رد کرتے ہیں ۔ )1:24-32(رومیوں حقیقت میں اصل معمالہ یہ نہں ہے کہ کُچھ لوگوں نے خُدا کے بارے میں نہیں سُن رکھا ہے ۔ بلکہ مسلئہ یہ ہے )4:29کہ وہ اُس کو رد کرتے ہیں جو انُنہوں نے سُن رکھا ہے اور جو وہ فطرت میں ہو بہو دیکھتے ہیں ۔ (استعشناہ

بیان کرتی ہے، " لیکن وہان پر بھی اگر تیم خُداوند اپنے خُدا کےطالب ہو تو وہ تجھ کو مِل جائے گا بشرطیکہ تو اپنے پورے دل اور اپنی ساری جان سے اُسے ڈھونڈے۔" یہ آیت ہمیں ایک اہم اُسول سکھاتی ہے ۔ جو کوئی بھی خُدا کو سچا۴ی سے ڈھونڈتا ہے اُسے پالے گا۔ اگر ایک شخص خُدا کو جاننے کی سچی خواہش کرتا ہے ۔ تو خُدا اپنے آپ اُس پر واضح کر دے گا۔

مسلئہ یہ ہے کہ " کوئں سمجھدار نہیں ۔ کوئں خُدا کا طالب نہیں۔" لوگ خُدا کی تعلیم کو رِد کرتے ہیں ۔ جو کہ فطرت میں اور اُن کے اپنے دِلوں میں موجود ہے اور اِس کا بجائے وہ اپنے تخلیق کردہ ایک "خُدا " کی عبادت کرتے ہیں خُدا کی طرف سے ایک آدمی کو جنہم میں پھینکے جانے پر جس کے کبھی مسیح کی انجیل کو سُننے کا موقع نہیں ملا اِس پر بحث کرنا فضول ہے ۔ لوگ خُدا کے سامنے ذمہ دار ہیں جوکہ وہ پہلے ظہور کر چکا ہے ۔ بائیبل کہتی ہے کہ لوگ اِس تعلیم کو رد کرتے ہیں اور تاہم خُدا انہیں جنہم میں سزا دینے میں عادل ہے۔

اُن کی قسمت پر جنہوں نے کچھی نہیں سُنا بحث کرنگے کی بجائے ہمیں مسیحی ہونے کے ناطے اِس یقین دہانی کے لیے بھر پور کوشش کرنی چائیے کہ وُہ سُنیں ۔ ہمیں قوموں میں انجیل کی منادی کے لیے بلایا گیا ہے۔ ) ۔ ہم جانتے ہیں کہ لوگ فطرت میں ظہور پذیر خُدا کی تعلیم کو رِد کرتے ہیں ، 1:8 ) اور (اعمال 28:19-20 (متی اور یہ ہمیں یسوع مسیح کے وسیلہ سے نجات کی خوشخبری کا دعوٰی کرنے کے لیے ترغیب دیتا ہے ۔ صرف خُداوند مسیح یسوع کے وسیلہ سے خُدا کے فضل کو قبل کرکے لوگ اپنے گُناہوں سے اور خُدا سے مکمل علیحدگی سے نجات پا سکتے ہیں ۔

اگر ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ وُہ جنہوں نے کبھی بھی انجیل کو نہیں سُنا خُدا سے رحم کے حقد دار ہیں، تو ہم ایک خوفناک مسلئے میں پڑ جائیں گے۔ اگر وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی انجیل کو نہیں سُنا نجات پاتے ہیں ، یہ ایک منطق ہے کہ ہمیں یہ یقین دہانی کرنی چاہیے کہ کوئں ہمیشہ ہی بائیبل کو نہ سُنے ۔ سب سے بڑی بات جو ہم کرسکتے ہیں کہ ایک شخص جو کے ساتھ انجیل کو بانٹیں اور وہ یا وہ (لڑکی) اُسے رد کر دے اگر یہ واقع ہوتا ہے تو وہ (مرد) یا وہ (عورت) کو سزا ملنی چاہیے ۔ وہ لوگ جو انجیل کو نہیں سُنتے انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے، یا کہیں ایسی جگہ پر جہان بشارتی کام کی کوئں تحریک نہ ۔ کیوں انجیل کو رد کرکے اپنے آپ کو سزاور ٹھہرانے کا مکمنہ خطرہ مول لے رہے ہیں۔ جبکہ وہُ پہلے ہی سے نجات یافتہ ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی بھی انجیل کو نہیں سُنا ہے ؟


سوال: متبادل کفارہ کیا ہے ؟

جواب:
متبادل کے طور ہر مارے جانے کا حوالہ دیتا ہے ۔ کلام ہمیں سکھاتا ہے کہ تمام انسان گناہ گار ہیں (رومیوں 23، 18-3:9) ہمارے گناہوں کی مزدوری موت ہے ۔ رومیوں 6 باب اُسکی 23 آیت پڑھیں، " کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے ، مگر خُدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔"

یہ آیت ہمیں بہت ساری چیزیں سکھاتی ہے ۔ مسیح کے بغیر ہم مرنے والے ہیں اور جہنم میں اپنے گناہوں کے کفارے کے طو پر ایک ابدی زندگی گزارنے والے ہیں ۔ کلام میں موت ایک "علیحدگی" کا حوالہ دیتی ہے ۔ ہر کوئں مرے گا، لیکن کچھ جنت میں خداوند کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی پائیں گے، جبکہ دوسرے جہنم میں ایک ابدی زندگی گزاریں گے۔ یہاں پر موت کو جہنم میں زندگی کہا گیا ہے ۔ تاہم دوسری بات یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ابدی زندگی مسیح یسوع کے وسیلہ سے مل سکتی ہے ۔ یہ اُس کا متبادل کفارہ ہے ۔

مسیح یسوع جب اُسے صلیب پر مصلوب کیا گیا تو وہ ہماری جگہ پر موا ۔ ہم اُس صلیب پر مصلوب ہونے کےحقدار تھے کیونکہ ہم اُن میںسے ایک ہیں جنہوں نے گناہ آلودہ زندگی گزاری ہے ۔ لیکن مسیح نے ہماری جگہ پہ سزا اٹھائی ، وہ ہمارے متابدل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتا ہے ، اور اُس نے وہ اٹھایا جس کے صحیح ہم حق دار تھے۔ " جو گُناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خُدا کی راستبازی میں شامل ہو جائیں ۔(11 کرنتھیوں 5:21)

" وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مارکھانے سے تم نے شفا پائی۔ " یہاں پر ہم دوبارہ دیکھتے ہیں کہ مسیح نے ہمارے گناہ اپنے آپ پر اٹھا لیے اور ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کی ۔ چند ایک آیات کے بعد ہم بڑھتے ہیں،" اس لیے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لیے گناہوں کے باعث ایک بار دُکھ اٹھایا تاکہ ہم کو خُدا کے پاس پہنچائے ، وہ جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا ۔ لیکنروح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا۔" ( 1 پطرس 3:18) یہ آیات نہ صرف اس متبادل کے بارے میں سکھاتی ہیں۔ جو مسیح نے ہمارے لئے کیا بلکہ وہ یہ بھی سکھاتی ہیں کہ وہ کفارا تھا ، اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کے گناہ کی قیمت ادا کرکے مطمیں تھا۔

ایک اور پیرا جو کہ اِس متبادل کفارہ کے بارے میں بات کرتا ہے ۔ یسعیاہ 53:5ہے ۔ یہ آیت آنے والے مسیح کے بارے میں بتاتی ہے جسیے ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر مرنا تھا۔ نبوت بہت تفصلاً ہے اور صلیب کا واقعہ پہلے سے بیان شدہ تھا۔ " حالانکہ وہ ہماری خطائو ں سببسے گھاءل کیا گیا اور ہامری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہامری ہی سلامتی کے لیے اُس پر سیاست ہوئں تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں ۔" اِ س متبادل پر غہور کریں۔ یہاں پر دوبارہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے ہمارے لئے کفارہ ادا کیا۔

ہم اپنے طور پر اپنے گناہوں کا کفارا ادا کرنے کے لیے زمین پر آیا ۔ کیونکہ اُس نے یہ ہمارے لئے کیا، اب ہمارے پاس ناصرف ہمارے گناہوں کی معافی کا موقع ہے بلکہ اُس کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی گزارنے کا بھی ہے ۔ ایسا کرنے کی خاطر ہمیں اپنا ایمان اُس پر رکھنا چاہیے جو مسیح نے صلیب پر کیا ۔ ہم اپنے آپ کو نجات نہیں دے سکتے ہیں ، ہمیں ہماری جگہ پر ایک متبادل کی ضرورت ہے مسیح یسوع کی موت متبادل کفارہ ہے ۔


سوال: نجات میں خُدا کی بادشاہی اور بنی نوع انسان کی آزادانہ مرضی کس طرح اکٹھے کام کرتیں ہیں ؟

جواب:
خُدا کی بادشاہی اور بنی نوع انسان کی آزادانہ مرضی اور ذمہ داری کے درمیان رشتہ کو مکمل طو ر پر سمجھنا ہمارے لئیے ناممکن ہے ۔ صرف حقیقی طور پر خُدا ہی جانتا ہے کہ وُہ کس طرح اُس کے نجات کے منصوبے میں اکٹھے کام کرتے ہیں ۔ غالباً اِس معاملے سے زیادہ کسی دوسرے عقیدے سے بڑھ کر یہ ہے کہ خُدا کی قدرت اور اُس کے ساتھ ہمارے رشتہ کی مکمل گرفت کی نااہلیت کو قبول کرنا نہایت اہم ہے ۔ نجات کی غلط بیان کر دہ سمجھ بوجھ میں ہر پہلو کے نتائج بہت دور تک چلے جاتے ہیں ۔

کلام واضح کرتا ہے کہ خُدا جانتا ہے کہ کون نجات پائے گا (رومیوں 8:29، 1 پطرس 1:2) افسیوں 1 باب اُسکی 4 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا نے ہمیں بناء عالم سے بیشتر " ہمیں چُن لیا تھا۔ بائیبل بار بار ایمانداروں کو "چُنے ہوئے" کے طور پر بیان کرتی ہے ۔ (رومیوں 8:33) 11:5، افیسوں 1:11، کلسیوں 3:12، رومیوں 11:7، 1تیمتھیس 5:21، 11تیمتھسیں 2:10، ططس 1:1، ۱ پطرس 1:1) حقیقت یہ ہے کہ ایماندار پہلے سے مقرر شدہ ہیں (رومیوں 30 ، 29:8، افسیوں 11 ، 1:5) اور نجات کے لیے اِن کا مقرر ہونا نہایت واضح ہے (رومیوں 9:11، 28:11، 11۔پطرس 1:10 )

بائیبل یہ بھی کہتی ہے کہ ہم مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے کے ذمہ دار ہیں ، ہمیں یہ سب مسیح یسوع میں ایمان رکھ کے کرنا ہوگا اور ہم نجات یافتہ بن جائںں گے (یوحنا 3:16، رومیوں 10-10:9) ۔ خُدا جانتا ہے کہ کون نجات پائے گا، خُدا اُن کو چُنتا ہے جو نجات پائیں گے اور ہمیں نجات پانے کی خاطر مسیح کو چُن لینا چاہیے ۔ ایک محدود ذہن کے لیے یہ سمجھنا ناممکن ہے۔ کہ یہ تینوں ھقاءق کس طرح کام کرتے ہیں ۰رومیوں 36-11:33) ہماری ذمہ داری تمام دُنیا میں انجیل کو پھیلانا ہے ۔ (متی 20-28:18، اعمال 1:8) ۔ ہمیں پیش علمی ، انتخاب اور پہلے سے مقرر ہونا خُدا پر چھوڑ دینا چاہیے اور سادگی سے انجیل کی منادی کی تابعداری کرنی چاہیے۔


سوال: کیا ابدی زندگی کی ضمانت گُناہ کرنے کا " اجازت نامہ " ہے؟

جواب:
ابدی زندگی کی ضمانت کے عقیدے کی کثیر الواقع مستردگی یہ ہے کہ فرضی طور پر لوگوں کو اجازت دی جانا کہ وہ جس طرح سے چاہیں رہیں اور پھر بھی نجات یافتہ ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ "تیکنیکی " لحاظ سے سچ ہو لیکن حقیقت میں یہ سچ نہیں ہے ۔ ایک شخص جس نے میسح یسوع سے سچی نجات پائں ہے ، وہ کبھی بھی ایک مسلسل دانستہ گُناہ آلودہ زندگی نہیں گُزارے گا۔ ایک مسیحی کو کس طرح رہنا چاہیے اور ایک شخص کو نجات حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے ۔ ہمیں اِن کے بیچ ایک امتیازی لکیر کھینچنا چاہیے ۔

بائیبل واضح کرتی ہے کہ نجات صرف فضل سے، محض ایمان کے وسیلہ سے، اکیلے مسیح یسیوع میں ہے ۔ (یوحنا 3:6 افسیوں 8-2:9 ، یوحنا 14:6 ) ۔ وہ وقت جب ایک شخص میسح یسوع میں سچا ایمان رکھتا ہے، وہ (مرد) یا وہ (عورت) نجات پالیتے ہیں اور اِس نجات میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ نجات ایمان سے حاصل نہیں کی جاتی ہے بلکہ اعمال سے مستحکم کی جاتی ہے ۔ پوُلس رسول اِس نکتہ پر گلتیوں 3 باب اُسکی 3 آیت میں بیان کرتا ہے ۔ جہاں وہ پوچھتا ہے۔ " کیا تم ایسے نادان ہو کر رُوح کے طور پر شروع کرکے اب جسم کے طور پر پوُرا کام کرنا چاہتے ہو؟" اگر ہم ایمان سے نجات پاتے ہیں، ہماری نجات بھی ایمان سے برقرار اور محفوظ ہے۔ ہم اپنی نجات نہٰیں کما سکتے ہیں ۔تاہم نہ ہی ہم اپنی نجات کو برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ یہ خُدا ہے جو ہماری نجات کو برقرار رکھتا ہے (یہوداہ 24 باب) ۔ یہ خُدا کا ہاتھ ہے جو مضوطی سے ہمیں اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ (یوحنا 29-10:28 ) ۔ یہ خُدا کی محبت ہے اور کوئں بھی ہمیں اُس سے جُدا نہیں کر سکتا (رومیوں 39-8:38)

اِس کے لب لباب میں ابدی زندگی کی ضمانت کا کسی بھی قسم کا انکار ایل عقیدہ ہے کہ ہم اپنی نجات کو ہم اپنے نیک کاموں اور جدوجہد سے براقرار رکھنی چاہیے۔ ہم مسیح کی لیاقت کی وجہ سے نجات پاتے ہیں نہ کہ ہماری اپنی لیاقت کی وجہ سے (رومیوں 8-4:3)۔ دعوی کرنا کہ ہمیں خُدا کے کلام کی تابعداری کرنی چاہیے یا یہ کہتے ہوئے کہ مسیح کی موت ہمارے گناہوں کے کفارے کے لیے کافی نہیں تھی اپنی نجات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سنہری زندگی گزارنی چاہیے ۔ مسیح کی موت ہمارے تمام گناہوں، ماضی ، حال اور مستقبل، نجات سے پہلے کے اور نجات کے بعد کے گناہوں کو کفارے کے لیے کافی ہے۔ (رومیوں 5:8، 1 کرنتھیوں 15:3، کرنتھیوں 5:21)

کیا اِس کا ملطب یہ ہے کہ ایک مسیحی جس طریقے سے وہ چاہتا ہے زندگی گزار سکتا ہے اور پھر بھی نجات یافتہ ہو؟ یہ لازماً ایک مفروضی سوال ہے ۔ کیونکہ بائیبل اِسے واضح کرتی ہے کہ ایک سچا مسیحی زندگی ایسے نہیں گزارے گا" جس ہاتھ طریقے سے وہ چاہتا ہے۔ مسیحی نئی مخلوقات ہیں (11 کرنتھیوں 2-5:19) مسیحیوں کو رُوح کے پھل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (گلتیوں 23-5:22)جسم کے عمل سے (گلتیوں 21-5:19) ۔ یوحنا کا پہلا خط 3 باب اُسکی ۶ سے ۹ آیت تک واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ایک سچا مسیحی مسلسل گناہ میں نہیں رہ سکتا ہے ۔ انکار کا جواب ہے کہ فضل گناہ کو تحریک دیتا ہے، پُولس رسُول اعلان کرتا ہے، "پس ہم کیا کہیں؟ کیا گُناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیداہ ہو؟۔ ہر گز نہیں ہم جو گُناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکہ اُس میں آئیندہ کو زندگی گزاریں۔

ابدی زندگی کی ضمانت گُناہ کرنے کا ایک انازت نامہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ جاننے کی ضمانت ہے کہ خُدا کی محبت اُن لوگوں کے جمانت ہے جو مسیح پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ خُدا کے نجات کے شاندار تحفہ کو جاننا اور سمجھنا گُناہ کے لیے اجازت نامہ دینے کی مخالفت کرتا ہے ۔ کس طرح سے کوئں ہمارے لیئے مسیح کی ادا کی ہوئں قیمت کو چانتے ہو گُناہ کی زندگی گزارتا ہے ۔ (رومیوں 23-6:15)؟ کس طرح سے کوئں بھی جو کہ خُدا کی غیر مشروط اور قابل بھروسہ محبت کو جان سکتا ہے جو ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ، وہ یہ محبت اٹھاتے ہیں اور واپس خُدا کو لوٹا دیتے ہیں ؟ ایسا آدمی یہ بیان نہیں کرے گا کہ ابدی زندگی کی ضمانت اُسے گُناہ کرنے کا ایک اجازت نامہ دے چکی ہے، بلکہ وہ یسوع میسح کے وسیلہ سے سچی نجات کا تجربہ نہیں کر چکے ہوتے۔ " جو کوئی اُس میں قائم رہتا ہے وہ گُناہ نہیں کرتا ۔ جو کوئں گُناہ کرتا ہے نہ اُس نے اُسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے"۔