بائبل کے بارے سوالات

سوال: كيا واقعي كلامِ مقدس خدا كا كلام هے؟

جواب:
ہمارا اس سوال كا جواب دينا صرف اس كا احاطه كرنا نهيں هوگا كه كيسے كلامِ مقدس كا مطالعه كرنا هے اور اسكي هماری زندگيوں ميں کیا اهميت هے، ليكن ساتھ هي ساتھ اس كا ابدی اثر هم پر بھي هوگا۔ اگر كلامِ مقدس حقيقت ميں خدا كا كلام هے، پھر ہميں اس ميں پرورش پانا چاهيے، اسے پڑھنا چاهيے، اسكي تابعداری كرنا چاهيے اور اس پر مکمل اعتماد كرنا چاهيے۔ اگر كلامِ مقدس خدا كا كلام هے تو اُسےترک كريں جو خدا سےہمیں دور كرتا هے۔

حقيقت يه هے كه خدا نے ہميں كلامِ مقدس ثبوت کے طور پر اور اپنے پيارکے اظہار كے لئے ديا هے۔ لفظ "مكاشفه"كا ساده سا مطلب هے كه خدا بني نوع انسان كو آگاه كرتا هے كه وه كيا پسند كرتا هے اور كيسے ہم اس كے ساتھ راست "تعلق یا رشتہ "ركھ سكتے ہيں۔ يه وه چيزيں ہيں جن كو ہم نه جان سكتے ہيں اور جان سكتے تھے پر خدا نے اپني الهي قدرت سے اسے ہم پر كلامِ مقدس كے ذريعے ظاهر كيا۔ اگرچے كلامِ مقدس ميں خدا كا مكاشفه بڑي كاميابي كے ساتھ تقريباً 1500سالوں سے زياده عرصه ميں ديا گيا تھا، يه ہميشه ہر اس چيز پر مشتمل هوتا تھا جو انسان كو خدا كے بارے ميں جاننے كي ضرورت تھي تاكه وه اسكے ساتھ راست تعلق ركھ سكے۔ اگر كلامِ مقدس حقيقت ميں خدا كا كلام هے ، پھر يه آخری اختيار ہے ايمان كے تمام معاملات كے لئے، مذهب پر چلنے كے لئے، اور اچھائي كے لئے۔

سوال جو ہميں اپنے آپ سے پوچھنا چاهيے يه كه ہم كيسے جانےکہ كلامِ مقدس ہي خدا كا كلام هے اور صرف ايک اچھي كتا ب ہی نهيں؟ كلامِ مقدس ميں كيا انفراديت هے جو اسے دنيا كي تمام لكھي گئي مذهبي كتابوں سے الگ كرتي هے؟ كيا يهاں كوئي ثبوت هے كه كلامِ مقدس واقعي خدا كا كلام هے؟ يهاں پر كئي قسم كے سوالات ہيں جن پر ہميں غور كرنا چاهيے اگر ہم كلامِ مقدس كے دعوؤں كي سنجيدگي سے چھان بين كرنا چاهتے هيں كه كلامِ مقدس درحقيقت خدا كا كلام هے، پاک الهام، اور ايمان كے تمام معاملات اور عمل كے ليے مجموعي طورپر كافي هے ۔

يهاں پر اس حقيقت ميں شک نهيں كيا جاسكتا كه كلامِ مقدس دعوی كرتا هے كه وه درحقيقت خدا كا كلام هے۔ بلاشبه یہ آيات ديكھيں:۔ دوسرا تیمتھیس 3باب15تا17آيت میں مقدس پالوس رسول اپنے روحانی فرزند تمتھیس سے گفتگو کے دوران یہ نصحیت کرتا نظر آتا ہے کہ ۔ ..."اور تو بچپن سے ان پاك نوشتوں سے واقف هے جو تجھے مسيح يسوع پر ايمان لانے سے نجات حاصل كرنے كے لئے دانائي بخش سكتے هيں۔ ہر ایک صحيفه جو خدا كے الهام سے هے تعلم اور الزام اور اصلاح اور راستبازي ميں تربيت كرنے كے لئے فائده مند بھي هے۔ تاكه مردِ خدا كامل بنے اور هر ايک نيک كام كيلئے بالكل تيار ھو جائے"۔

ان سوالات كے جواب ديتے هوئے هم اندروني اور بيروني تمام ثبوتوں كو ديكھيں گے جو كلامِ مقدس كو خدا كا سچا كلام ثابت كرتے هيں۔ اندروني ثبوت وه چيزيں هيں جو كلامِ مقدس ميں موجود هيں جو پاک بنياد كي تصديق كرتيں هيں۔ اندروني ثبوتوں ميں پہلا ایک يه كه كلامِ مقدس حقيقت ميں خدا كا كلام هے جو اس كي واحدنيت سے ظاهر هے۔ حالانكه يه66واقعي انفرادی كتابيں ہيں، تين برا عظموںميں لكھي گئي هيں، تين مختلف زبانوں ميں لکھی گئی ہے، تقریباۖ 1500 سالوں کے عرصه ميں،40سے زائد مصنفين ﴿جو بهت سے مختلف شعبه هائے زندگي سے تعلق رکھتے تھے ﴾، كلامِ مقدس شروع سے آخر تک بغير كسي اختلاف كے ايک يكجا كتاب رہي ہے اس كي واحدنيت باقي كتابوں سے بے مثال هے اور اسکا ثبو ت هے پاک بنياد كا كه خدا كا كلام ان كو ايسے تحريک ديتا كه وه اسكے حقيقي كلام كو قلم بند كرتے تھے۔

اندروني ثبوتوں كا ايک اور ثبوت جو ظاهر كرتا كه كلامِ مقدس واقعي خدا كا كلام ہے جو تفصيل وار كلام مقدس كے صفحات ميں درج پيشن گوئيوں پر محيط ہے۔ كلامِ مقدس سينكڑوں تفصيلي پيشن گوئيوں پر مشتمل هے جن كا تعلق بهت سي قوموں كے مستقبل سے ہے جس ميں اسرائيل بھي شامل ہے، اس خاص شهروں كا مستقبل بھي ہے، بني نوع انسان كا مستقبل، اور اس ايک كے آنے كے لئے جو مسيحا هو گا، جو صرف اسرائيل كا نجات دهنده نه هوگا، مگر ان تمام كا جو اس پر ايمان ركھيں گے۔ غير مشاهبه پيشن گوئياں دوسرے مذاهب كي كتابوں ميں ملتي ہيں اور وه پيشن گوئياں جو نوسٹراڈيمس نے كيں، كلامِ مقدس كي پيشن گوئياں حد سے زياده تفصيلاً هو تي هيں اور هميشه سچائي كے ساتھ پوري هوئيں اوركبھي ناكام نه هوئيں۔ صرف پرانے عهد نامے ميں تين ﴿300﴾سو سے زائد پيشن گوئياں يسوع مسيح كے بارے ميں ہيں۔ نه صرف پہلے سے يه بتايا گيا تھا كه كہاں پيدا هو گا اور كس خاندان سے هو گا ، ليكن ساتھ هي يه بھي بتايا گيا تھا كه وه كيسے مرے گااور وه تيسرے دن دوباره زنده هوگا۔ يهاں يه سادگي سے نه کہ منطقي روح سے بيان كيا گيا كه كلامِ مقدس كي پوری هو چكي پيشن گوئياں كسي دوسرے سے نهيں بلكه پاک ابتد ا سےہیں۔ يهاں پر كسي دوسرے مذهب كي كوئي كتاب نهيں جو وسيع هو يا بارآور پيشن گوئياں كرے جيسي كلامِ مقدس ميں ہيں۔

كلامِ مقدس كا پاک الهام هونے كا تيسرا اندروني ثبوت اسكے بے مثال اخيتار اور طاقت ميں نظر آتا هے۔ جبكه يه ثبوت پہلے دو اندروني ثبوتوں سے زياده موضوع هے، يه كلامِ مقدس كے پاك الهامي هونے كي بہت طاقتور گواهي سے كم نهيں ۔ كلامِ مقدس بے مثال اختيار ركھتا هے جو اب تک لكھي گئي تمام كتابوں سے الگ هے۔ يه اختيار اور طاقت ان گنت لوگوں كي زندگي سے نظر آتا هے جهنوں نے اپني زندگيوں كو كلامِ مقدس كو پڑھنے سے بدلا۔ نشے كے عادی لوگ اس كي وجه تندرست هو جاتے ہيں، ہم جنس پرست اس كے ذريعے آزاد هو جاتے هيں، لاوارث اور قرض سے دبے هو ئے لوگ بدل جاتے ہيں، سخت عادی مجرم اصلاح پاتے ہيں، گنهگاروں كي اس كے ذريعے ملامت كي جاتي هے، اور اس كو پڑھنے سے نفرت پيار ميں بدل جاتي هے۔ بائبل تبديل كرنے اور قوتِ عمل كي طاقت ركھتي هے جو صرف اس لئے ممكن هے كيونكه يه حقيقي خدا كا كلام هے۔

اندروني ثبوتوں كے ساتھ ساتھ كه كلامِ خدا كا كلام هے يهاں پر بيروني ثبوت بھي هيں جو يه ظاهر كرتے ہيں كه كلامِ مقدس حقيقي طور پر خدا كا كلام هے۔ ان ثبوتوں ميں ایک ثبوت كلام مقدس كا تاريخي هونا هے۔ كيونكه كلامِ مقدس ميں تفصيلاً درج تاريخي واقعات دوسری تاريخي تحريروں كے ساتھ موازنے سے اس كي سچائي اور درستگي كو ثابت كرتے ہيں ۔ آثارِ قديمه اور تحريري لكھے گئے دونوں ثبوتوں كے ذريعے، كلامِ مقدس كي تاريخي تفصيل وقتاً فوقتاً ثابت هو چكي ہيں جو درست اور سچي ہيں۔ حقيقت ميں تمام آثارِ قديمه اور ہاتھ سے لكھي گئي كتابوں كے ثبوت كلامِ مقدس كي حمايت كرتے ہيں يه اسے قديم دنيا كي بہترين دستاويزی كتا ب بناتے ہيں۔ درحقيقت كلامِ مقدس درستگي اور سچائي سے تاريخي طور پر لكھا جاتا رہاهے اس كے واقعات كي تصديق اسكے سچے اور عظيم هونے كو ظاهر كرتي هے جب مذهبي موضوعات اور اس كي تعليمات اور اسكے دعوؤں كو سچ ثابت كرنے ميں مدد كرتا هے كه يه واقعي خدا كا كلام هے ۔

ايک اور بيروني ثبوت جس سے كلامِ مقدس حقيقي خدا كا كلام ثابت هوتا هے وه انساني مصنفين كي راستبازی هے۔ جيسے پہلے ذكر كيا گيا، خدا نے بہت سے شعبه ہائے زندگي سے لوگو ں كو استعمال كياتاكه وه ہمارے لئے خدا كا كلام قلمبند كريں۔ ان لوگوں كي زندگيوں كا مطالعه كرنے سے ، يهاں ان پر يقين نه كرنے كي كوئي اچھي وجه نهيں كه وه ايماندار اور مخلص لوگ نه تھے۔ ان كي زندگيوں پر غور سے نگاه كريں اور يه حقيقت سامنے آيگي كه وه مرنے كے خواہاں تھے﴿اكثر بهت دردناک موت مرے﴾كه وه كيا ايمان ركھتے تھے، يه جلد ہي ظاہر هو گيا كه وه عام لوگ تھے مگر ايماندار اور خدا پر بھروسه ركھنے والے تھے اور ان سے بات كرتا تھا۔ وه لوگ جهنوں نے نيا عهدنامه لكھا اور سينكڑوں دوسر ے ايماندار ﴿1۔كرنتھيوں15باب6آيت﴾ اس كے پيغام كي سچائي كو جانتے تھے كيونكه انهوں نے يسوع مسيح كو مردوں ميں سے جي اُٹھنے كے بعد ديكھا اور ساتھ وقت گزارتھا۔ مسيح كي بدلي هو ئي صورت كو ديكھنا ان آدميوں پر ايک گهرا اثر ركھتا تھا۔ وه خوف زد ه هو كر بھاگ گئے، جو پيغام خدا نے انهيں ديا وه اس كے لئے مرنے كے لئے تيار تھے۔ ان كي زندگي اور موت اس حقيقت كي تصديق كرتي هے كه كلامِ مقدس هي سچا خدا كا كلام هے۔

كلامِ مقدس كا ايک آخری بيروني ثبوت يه هے كه كلامِ مقدس لازوال هے۔ كيونكه اس كي اهميت كي وجه سے اور يه دعوی كرتا هے كه يه حقيقي خدا كا كلام هے، كلامِ مقدس نے بهت سارے غليظ حملے برداشت كئے ہيں اور تاريخ ميں كوئي دوسری

كتا ب نهيں جس كو كلامِ مقدس كي طرح تباه كرنے كي كوشش كي گئي هو۔ ابتدائي رومي شهنشاهوں نے ، اشتراكيت پسند حكمرانوں اورجديد دنيا كے بے دين اور فرسوده خيالات كو ماننے والوں كا، كلام ِ مقدس نے بڑي جوانمردی سے اور سنبھل كر ان سب كا سامنا كيا اور اب بھي يه دينا كي سب سے زياده چھپنے والي كتاب هے ۔

وقت گزارنے كے ساتھ، بے اعتقاد لوگ جو كلامِ مقدس كو ديومالائي قصے مانتے هيں، مگر قديم چيزوںكا علم ركھنے والوں نے اسے تاريخي بنا ديا هے۔ مخالفين نے حملے كئے كے اس كي تعليم فرسوده اور متروك، ليكن ساري دنيا ميں اسكے نيك اورشرعي تصورات اور تعليمات نے قوموں اور تهذيبوں پر مثبت اثر ركھا۔ اس پر سائنس سے ، علمِ نفسيات سے اور سياسي تحريكوں كے ذريعے حملے جاري هيں اور آج بھي يه سچا اور مناسب هے جس طرح يه پهلي بار لكھا گيا تھا۔ يه ايك كتا ب هے جس نے گذشته 2000سالوں سے بے شمار زندگياں اورتهذيبيں تبديلي كي هيں۔ كوئي مسئله نهيں كه كيسے اس كے مخالفين اس پر حملے كرتے هيں، تباه كرتے هيں يا اس بدنام كرتے هيں، كلامِ مقدس هميشه كي قائم رهتا هے، سچ كي مانند، اور حملوں كے بعد اسي طرح قائم رهتا هے جيسے وه پهلے تھا۔ اس كي درستگي جو محفوظ كي گئي تھي دشمنوں نے هر ممكن كوشش كي كه اسے بگاڑيں ، حمله كريں يا تباه كريں، يه حقيقت كي واضع گواهي هے كه كلامِ مقدس هي خدا كا سچاكلام هے۔ يه همارے لئے كوئي حيراني كي بات نهيں كه كيسے كلامِ مقدس پر حملے كئے گئے، يه هميشه بغير تبديلي كے اور ضر ر سے محفوظ نكلاهے۔ آخر كار، يسوع نے كها، "آسمان اور زمين ٹل جائيں گے، ليكن ميري باتيں نه ٹليں گي"﴿مرقس13باب31آيت﴾۔ تمام ثبوتوں كو ديكھ كر هر كوئي بغير شك كے كهه سكتا هے كه "هاںكلامِ مقدس هي سچ خدا كا كلام هے "۔


سوال: کیا بائبل میں اغلاط ، نقائص یا ختلافات پائے جاتے ہیں ؟

جواب:
اگر ہم بائبل کو پہلے سے سوچی سمجھی اغلاط کی تلاش کے بغیر مقابلہ کرنے کی خاطر پڑھیں تو ہم اِسے قابلِ فہم ، با اصول اور متعلقہ اعتبار سے ایک آسانی سے سمجھ آنے والی کتاب پائیں گے ۔ جی ہاں ، یہاں پر مُشکل پیرے ہیں ۔ جی ہاں اِس میں ایسی آیات ہیں جو آپس میں اختلافات رکھتی ہیں ۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل تقریبا 40 مختلف مصنفین نے تقریبا 1500 سال سے زائد عرصہ میں لکھی تھی ۔ ہر مصنف نے ایک مختلف پیش نظر سے مختلف سُننے والوں کے لیے ایک مختلف مقصد کے لیے ایک مختلف انداز میں لکھا ۔ ہمیں چند چھوٹے چھوٹے اختلافات کو مان لینا چاہیے ۔ تاہم مختلف ہونا نقص نہیں ہے ۔ اگر ایسا کوئی بھی طریقہ نہ ہو کہ آیات اور پیروں کو ہم آہنگ کیا جا سکے تو یہ محض ایک غلطی ہو گی ۔ حتی کہ ابھی تک کوئی جواب دستیاب نہ ہو تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جواب کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ بہت ساروں نے بائبل میں تاریخ اور جغرافیہ سے متعلقہ ایک فرضی غلطی کو تلاش کیا محض یہ دیکھنے کے لیے کہ بائبل دُرست ہے ، ایک دفعہ پھر اِسکی گواہی آثارِ قدیمہ سے دریافت ہو چُکی ہے ۔

ہمیں اکثر اِس طرح کے فقروں پر مبنی سوالات موصول ہوتے ہیں کہ ، " وضاحت کریں کہ کس طرح یہ آیات اختلاف نہیں رکھتی ہیں "، دیکھیے ، یہاں پر بائبل میں غلطی ہے " یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے پیش کی جانے والی بعض باتوں کا جواب دینا مُشکل ہے ۔ تاہم ہماری یہ کوشش ہو تی ہے کہ بائبل کے ہر فرضی اختلاف اور غلطی کا مُفید نتیجہ خیز اور عقلی طور پر قرین قیاس جوابات دیے جائیں ۔ ایسی کُتب اور ویب سائٹ دستیاب ہیں جن میں " بائبل میں تمام اغلا ط " کی فہرست دی گئی ہے ۔ بہت سارے لوگ واضح طور پر اپنے لیے اِس طرح کی باتیں ایسی جگہوں سے لیتے ہیں ، وہ اپنے طور پر اِن فرضی اغلاط کو تلاش نہیں کر تے ہیں ۔ ایسی کُتب اور ویب سائٹ بھی دستیاب ہیں جو اِن فرضی اغلاط میں سے ہر ایک کو جھوٹا ثابت کرتیں ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جو بائبل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ حقیقی طور پر جواب میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ بہت سارے " بائبل پر شدید تنقید کرنے والے " اِن جوابات سے آگاہ ہوتے ہیں ، لیکن وہ بالکل اُس طرح کی پُرانی سوچ کو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ بار بار تنقید کرتے رہیں ۔

پس تب ہمیں کیا کرنا ہو گا جب کوئی بائبل کی ایک مدلل( دلیل کے ساتھ ) غلطی کے ساتھ ہمارے پاس آتا ہے ؟ 1) دعا کرتے ہوئے کلام کا مطالعہ کریں یہاں اِس کا ایک واضح حال موجود ہے 2)۔ بائبل کی عُمدہ تفاسیر " بائبل کا دفاع" جیسی کُتب اور بائبل کے بارے میں تحقیقی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ تحقیق کریں 3) اپنے پادریوں اور کلیسیا کے راہنماوں سے پوچھیں یہ دیکھنے کے لیے کہ اگرچہ اِس کا کوئی حل تلاش کر سکیں )4 اگر بیان کیے گئے 1 ۔ 2 ۔ 3 مرحلوں کے بعد بھی ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں ملا تو ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ اُس کا کلام سچائی ہے اور یہ کہ اِس کا حل موجود ہے جو کہ ابھی تک واضح طور پر آشکارہ نہیں ہوا ہے ۔ ( تیمتھیس 2 ( 17 ۔ 16 : 3 ، 15: 2 )


سوال: کیا بائبل آج کے دور کے متعلق ہے ؟

جواب:
عبرانیوں 4 با ب اُسکی 12آیت فرماتی ہے " کیونکہ خدا کا کلام زندہ اورموثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بند بند اور گُودے گُودے کو جُدا کر کے گُزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے ۔ " جبکہ بائبل تقریبا 1900 سال پہلے مکمل ہوئی تھی ، اِس کی سچائی اور اِس کا آج کے دور سے متعلقہ ہونا ابھی تک ناقابلِ تبدیل ہے ۔ بائبل ان تمام مکاشفوں کا جو خدا نے اپنے بارے میں اور بنی نوع انسان کے لیے منصوبہ کے بارے میں ہمیں دیے ہیں ، اُن کا ایک واحد خارجی ذریعہ ہے ۔ بائبل میں قُدرتی دُنیا کے بارے میں بہت ساری معلومات موجود ہیں جن کی سائنسی مشاہدا ت اور تحقیق سے تصدیق ہو چُکی ہے ۔ اِن پیروں میں سے چند احبار 11 : 17 استثنا 1 : 6 ۔ 7 ، یعقوب 36: 27 ۔ 29 ، زبور 102: 25 ۔ 27 اور کُلسیوں 1 : 16 ۔ 17 شامل ہیں ۔ جیسے ہی بنی نوع انسان کے لیے خدا کے نجات کے منصوبے کی بائبل کی کہانی کا راز سامنے آتا ہے ، بہت سارے کردار وضاحت سے بیان ہوتے ہیں ۔ اِن بیانات میں بائبل انسانی رویے اور رُجحانات کے بارے میں بہت ساری معلوما ت فراہم کرتی ہے ۔ ہمارا اپنا روزمرہ کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معلومات کسی نفسیاتی کتاب سے زیادہ درست اور تفصیلی طور پر بیان ہیں ۔ بائبل میں بیان کیے گئے بہت سارے تاریخی حقائق کی تصدیق بائبل سے اضافی ذرائع سے ہو چُکی ہے ۔ تاریخی تحقیق بعض اوقات بائبل کے بیانات اور بالکل انہی واقعیات کے بارے میں بائبل سے اضافی بیانات کے درمیان بہت زیادہ مطابقت ظاہر کرتی ہے ۔

لیکن بائبل ایک تاریخی کتاب ، ایک نفسیاتی متن یا ایک سائنسی رسالہ نہیں ہے ۔ بائبل وہ تفسیر ہے جو خدا نے اِس بارے میں کہ وہ کون ہے ، اور بنی نوع انسان کے لیے اُس کی خواہشات اور منصوبے کیا ہیں ، ہمیں بخشی ہے ۔ اَِس مکاشفہ کا سب سے اعلیٰ و ارفع جُز گناہ کے باعث خدا سے ہماری علیحدگی ار صلیب پر اپنے بیٹے یسوع مسیح کی قُربانی کے وسیلہ سے رفاقت کی بحالی کے لیے خدا کے اہتمام کی کہانی ہے ۔ نجات کے لیے ہماری ضرورت تبدیل نہیں ہوتی ہے ۔ نہ ہی اپنے ساتھ دوبارہ ملانے کے لیے خدا کی خواہش تبدیل ہوتی ہے ۔ بائبل میںبہت زیادہ درست اور متعلقہ معلومات موجود ہیں۔ بائبل کا سب سے اہم پیغام نجات ہے جو کہ عالم گیر اور دائمی طور پر انسانیت پر لاگو ہوتا ہے ۔ خدا کا کلام کبھی متروک ، ناکارہ یا ٹھرین شُدہ نہیں ہو گا ۔ ثقافتیں تبدیل ہوتی ہیں ، قانون بدل جاتے ہیں ، نسلیں آتیں ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن خدا کا کلام آج کے دور کے لیے اُتنا ہی متعلقہ ہے جتنا یہ تب تھا جب یہ پہلی دفعہ لکھا گیا تھا ۔ ضروری نہیں ہے کہ تمام کلام ااج کے دور پر صریحا ( وضاحتاً) لاگو ہوتا ہے ۔ لیکن تمام کلام میں سچائی موجود ہے جو کہ ہم آج کے دور میں اپنی زندگیوں پر لاگو کر سکتے ہیں یا ہمیں کرنی چاہیے ۔


سوال: کب اور کیسے بائبل کی مقدس کتابوں کا مجموعہ اکٹھا کیا گیا تھا ؟

جواب:
" مقدس کتابوں کا مجموعہ " کی اصطلاح اُن کتابوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کہ روحانی طور پر الہام پذیر ہوئی ہیں اور تاہم بائبل میں موجود ہیں ۔ بائبل کی مقدس کتابوں کے مجموعہ کو وضح کرنے میں مُشکل یہ ہے کہ بائبل ہمیں اُن کتابوں کی ایک فہرست مہیا نہیں کرتی ہے جو کہ بائبل میں شامل ہیں ۔ مُقدس کتابوں کے مجموعہ کو وضح کرنے کا کالم س سے پہلے یہوی فقہیوں اور عالموں نے اور بعد میں ابتدائی مسیحیوں نے کیا تھا ۔ آخر کار یہ خدا ہی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا کہ کونسی کتابوں کا تعلق اِس مجموعہ سے ہے ۔ مُقدس کلام کی ایک کتاب اُس لمحے سے اِس مجموعہ میں شامل ہے جب سے خدا نے اِسے الہامی طریقے سے لکھنا شروع کیا ۔ یہ واضح طور پر خدا کا اپنے انسانی پیروکاروں کو قائل کرنے کا معاملہ تھا کہ کون سی کتابوں کو بائبل میں شامل ہونا چاہیے ۔

نئے عہد نامہ سے موازنہ کرنے پر پُرانے عہد نامہ کے کتابوں کے مجموعہ کی فہرست میں ایک چھوٹا سا اختلاف پایا جاتا تھا ۔ عبرانی خدا کے پیامبروں کے طور پر تسلیم کیے گئے ہیں اور اُن کی تصانیف خدا کے الہام کے طور پر قبول کی گئیں ہیں ۔ جبکہ پُرنے عہد نامہ کی کتابوں کے مجموعہ سے متعلق چند نا قابلِ اِنکار مباحثے تھے ، 250 قبل از مسیح سے عبرانیوں کے کلام کی کتابوں کے مجموعہ میں تقریبا ً عالم گیر مطابقت پائی جاتی تھی ۔ محض ایک مسئلہ جو باقی رہ جاتا ہے وہ اسفارِ محرفہ ہے جس پر آج بھی مباحثے اور بیانات جاری ہیں ۔ عبرانی عالموں کی ایک وسیع اکثریت خیال کر تی ہے کہ اسفارِ محرفہ ایک تاریخی اور مذہنی دستاویز ہے، لیکن یہ بالکل اُس درجہ پر نہیں ہے جس پر عبرانیوں کا صحیفہ ہے ۔ کیونکہ نئے عہد نامے کی شناخت اور جمع کرنے کا کام ابتدائی صدیوں سے شروع ہوا ۔ بہت شروع میں نئے عہد نامے کی چند کُتب تسلیم کی جا رہی تھیں ۔ پوُلس نے لوقا کی تصانیف کو اتنا ہی معتبر خیال کیا جیسے کہ پُرانا عہد نامہ ہے ( 1 تیمتھیس 5 : 18 ، استثنا 25 : 4 اور لوقا 10 : 7 بھی دیکھیے ) پطرس نے پولس کی تصانیف کا کلام کے طور پر اِس کی سچائی کا ادراک کیا ہے ( 2 پطرس 3 : 15 ۔ 16 ) نئے عہد نامے کی کتابوں میں سے چند ایک کلیسیاوں میں گردش کر رہی تھیں ( کُلسیوں 4 : 16 ، 1 تھسلینکیوں 5 : 27 ) روم کے کلیمنٹ ( مہربان) نے نئے عہد نامہ کی تقریبا ً آٹھ کُتب کی نشاندہی کی ہے ( 95 بعد از مسیح ) اینٹیوک کے اگنیشیس نے سات کُتب کا اعتراف کیا ہے ( 115 بعد از مسیح) یوحنا رسول کے ایک شاگرد پولی کراپ نے 22 کُتب کی سچائی کا ادراک کیا ( 170 ۔ 235 بعد از مسیح) ۔ نئے عہد نامے کی وہ کُتب جن میں سب سے زیادہ اختلاف پایا گیا وہ ، عبرانیوں ، یعقوب، 2 پطرس ، 2 یوحنا اور 3 یوحنا ہیں ۔ پہلا مجموعہ " میوریٹورین کا وضح کر دہ مجموعہ تھا ، جس کی 170 بعد از مسیح میں تالیف کی گئی تھی ۔ میوریٹورین مجموعہ میں عبرانیوں ، یعقوب اور 3 یوحنا کے سوائے نئے عہد نامہ کی ساری کُتب شامل تھیں ۔ 363 بعد از مسیح میں لادوسیا کی کونسل نے بیان دیا کہ صرف پُرانہ عہد نامہ ( اسفارِ محرفہ) کے ساتھ ) اور نئے عہد نامہ کی 27 کُتب کلیسیاوں میں پڑھی جانی چاہییں ۔ ہیپو کی کونسل ( 393 بعد از مسیح) نے اور کیرتھیج کی کونسل (397 بعد از مسیح ) نے بھی اِنہی 27 کتابوں کو معتبر قرا ر دیا تھا ۔

کونسلوں نے یہ تعین کرنے کے لیے کہ نئے عہد نامہ کی ایک کتاب حقیقی طور پر روح القدس کی طرف سے الہام پذیر ہوئی تھی ، نیچے دئیے گئے اِسی طرح کے چند قواعد و ضوابط کی پیروی کی تھی ۔

1۔ کیا مصنف ایک رسول تھا یا ایک رسول کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا تھا ؟

2۔ کیا کتاب وسیع پیمانے پر مسیح کے جسم کے طور پر قبول کی جا رہی ہے ؟

3۔ کیا کتاب میں عقائد اور مذہبی تعلیمات کی تکرار موجود ہے ؟

4 ۔ کیا کتاب اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کی گواہی پیش کر تی ہے جو کہ روح القدس کے کام کی عکاسی ہیں ؟ دوبارہ پھر ، یہ یاد رکھنا نہایت ہی مُشکل کام ہے کہ کلیسیا مقدس کتابوں کے منموعہ کو وضح نہ کر سکی ۔ نہ ابتدائی کلیسیا ئی کونسل نے کتابوں کے مجموعہ پر فیصلہ دیا تھا ۔ یہ خدا اور صرف خدا ہی ہے ، جو کہ اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سی کُتب بائبل میں شامل ہیں ۔ یہ واضح طور پر خدا کا اپنے ماننے والوں کے لیے عنایت کا معاملہ ہے کہ وہ کیا پہلے فیصلہ کر چُکا ہے ۔ بائبل کی کُتب کو جمع کرنے کا انسانی عمل ادھورا تھا ، لیکن خدا نے اپنے اعلیٰ اختیار میں اور ہماری جہالت اور ہٹیلا پن کے باوجود ابتدائی کلیسیا کو کُتب کی شناخت سے بہرہ مند کیا ، جن کو اُس نے الہام پذیر کیا تھا ۔


سوال: بائبل کے مطالعہ کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟

جواب:
کلام کے معنی کا تعین کرنا ایک ایماندار کی زندگی کے اہم ترین کاموں میں سے ایک کام ہے ۔ بائبل ہمیں یہ نہیں بتاتی ہے کہ ہمیں بائبل کو سادہ طریقہ سے پڑھنا چاہیے ۔ ہمیں اِس کا مطالعہ کرنا چاہیے اور درست انداز میں اِسے استعمال کرنا چاہیے ( 2 تیمتھیس 2 : 15 ) ۔ کلام کا مطالعہ کرنا مُشکل کام ہے ۔ کلام کا سرسری اور مختصر تجزیہ بعض اوقات بہت غلط نتائج مہیا کرتا ہے ۔ تاہم کلام کے درست معنوں کا تعین کرنے کے لیے بہت سارے قواعد و ضوابط کو سمجھنا نہائت مُشکل ہے ۔

اولاً بائبل کے طالبِ علموں کو دعا کرنے اور روح القدس سے فہم و فراست مانگنی چاہیے کیونکہ یہ اُس کے کاموں میں ایک کام ہے " لیکن جب وہ یعنی روح ِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ا،س لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا "۔ ( یوحنا 13: 16 ) بالکل اِسی طرح جس طرح نیا عہد نامہ لکھنے میں روح القدس نے رسولوں کی راہنمائی کی وہ کلام کی فہم کے لیے ہماری بھی راہنمائی کرتا ہے یاد رکھیے ! بائبل خدا کی کتاب ہے اور ہمیں اُس سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے اگر آپ ایک مسیحی ہیں تو کلام کا لکھنے والا یعنی روح القدس آپ کے اندر سکونت پذیر ہے اور وہ آپ سے جو اُس نے لکھا ہے اُس کی فہم و فراست کا خواہاں ہے ۔ دوسرا ہمیں کلام کو اِس کے سیاق اسباق کی آیات سے بالا تر نہیں رکھنا چاہیے اور متن سے باہر کی آیت سے اِس کا مطلب تعین کرنےکی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ جبکہ تمام کلام خدا کی طرف سے ہے ( 2 تیمتھیس 3 : 16 ، 2 پطرس 1 : 21) خدا نے آدمیوں کو اِسے لکھنے کے لیے استعمال کیا یہ آدمی ذہن میں ایک موضوع رکھتے تھے ۔ لکھنے کا مقصد اور جو وہ واعظ کرتے اُس کے بارے میں مخصوس معاملہ فہم میں رکھتے تھے ۔ ہمیں بائبل کی کتاب کا پس منظر پڑھنا چاہیے ، ہم یہ تلاش کرنے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں کس نے یہ کتاب لکھی؟ کنِ لوگوں کے لیے یہ لکھی گئی ؟ یہ کب لکھی گئی ؟ اور یہ کیوں لکھی گئی ؟ ہمیں نفسِ مضمون کو اپنے بارے میں بات کرنے کے لیے بھی احتیاطً چھوڑ دینا چاہیے ۔ بعض اوقات لوگ اپنی تشریحات کو حاصل کرنے کی خاطر جو وہ چاہتے ہیں لفظوں کے اپنے ہی معنی مرتب کر لیتے ہیں ۔

تیسرا بائبل کے ہمارے مطالعہ میں ہمیں مکمل طور پر آزاد رہنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ سوچنا تکبر ہے کہ ہم دوسرے لوگوں جنہوں نے بائبل کا مطالعہ کر لیا ہے اُن کی زندگیوں کے عوامل کے وسیلہ سے فہم و فراست حاصل نہپیں کر سکتے ہیں ۔ بعض لوگ غلطی سے بائبل کو اِس طرح سے لیتے ہیں کہ وہ صرف روح القدس پر انحصار کریں گے اور کلام کی مخفی سچائیوں کو دریاف کر لیں گے ۔ مسیح نے روح القدس دیتے ہوئے مسیح کے جسم میں رہنے والے لوگوں کو روحانی تحائف دیے ہیں۔ اِن روحانی تحائف میں ایک تعلیم ہے ( افسیوں 4 : 11 ۔ 12 ، 1 کرنتھیوں 12 : 28 ) ۔ یہ اساتذہ کلام کی ٹھیک ٹھیک فہم و فراست اور اِس کی تابعداری کرنے میں ہماری مدد کے لیے خداوند نے دیے ہیں ۔ خدا کے کلام کی سچائی کو لاگو کرنے میں اور فہم و فراست میں ایک دوسرے کی راہنمائی کر تے ہوئے دوسرے ایماندروں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا ہمیشہ سے ایک دانشمندانہ اقدام ہے ۔

پس مختصراً ، بائبل کے مطالعہ کا ٹھیک طریقہ کیا ہے ؟ پہلا دعا اور عاجزی کے ساتھ ہمیں روح القدس پر انحصار کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں فہم و فراست سے نوازے ۔ دوسرا ہمیں ہمیشہ کلام کو اِس کے سیاق و اسباق کے حوالہ سے مطالعہ کرنا چاہیے یہ جانتے ہوئے کہ بائبل خود اِس کی وضاحت کرے گی ۔ تیسرا ہمیں ماضی و حال کے دوسرے مسیحیوں کی کوششوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ جو بائبل کے ٹھیک مطالعہ کے بارے میں تحقیق کر چُکے ہیں ۔

یار دکھیے خدا بائبل کا مصنف ہے اور وہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اُسے سمجھیں ۔


سوال: اِس کا کیا مطلب ہے کہ بائبل الہامی ہے ؟

جواب:
جب لوگ بائبل کے الہامی ہونے کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ اِس حقیقت کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں کہ خدا نے کلام کے انسانی مصنفین کو اِس طرح سے روحانی طور پر اثر انداز کیا ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے لکھا وہ خدا کا کلام تھا ، کلام کے پس منظر میں لفظ الہام کا واضح مطلب ہے " خدا کا الہام " ۔

الہام کا مطلب ہے کہ بائبل خدا کا سچا کلام ہے اور بائبل کو تمام دوسری کتابوں میں ممتاز بناتا ہے ۔

جبکہ یہاں پر وسیع بیانات ہیں جو کہ یہ بیان کر تے ہیں کہ بائبل الہامی ہے ۔ یہاں پر کوئی شک نہیں ہو سکتا ہے کہ بائبل بذاتِ خود دعوی کر تی ہے کہ بائبل کے پر حصے کا ہر لفظ خدا کی طرف سے ہے ( 1 کرنتھیوں 2 : 12 ۔ 13 ، 2 تیمتھیس 3 : 16 ۔ 17 ) ۔ کلام کے اِس بیان کا اکثر "مطلق زبانی" الہام کے طور پر ھوالہ دیا جاتا ہے اِس کا مطلب ہے الہام پر لفظ کے اپنے آپ ( زبانی ) نہ کہ محض تصورات اور نظریات تک اور لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ صرف بائبل کے حصے یا خیالات اور تصورات جو مذہب سے متعلقہ ہیں الہامی ہیں ۔ لیکن الہام کے بارے میں یہ نظریات بائبل کے اپنے دعویٰ کے بارے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ مکمل مطق زبانی الہام خدا کے کلام کی ایک ناگزیر خوبی ہے ۔

الہام کی وسعت کو 2 تیمتھیس 3 : 16 آیت میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ " ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لیے فائدہ بھی ہے " یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے اور یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے ۔ یہ صرف بائبل کے حصے نہیں بلکہ جو مذہنی عقائد کے متعلق ہیں وہی الہام شُدہ ہیں ۔ بلکہ پئدایش سے لے کر مکاشفہ تک ہر ایک لفظ الہام ہے کیونکہ یہ خدا کے الہام ہیں ۔ تاہم صحائف با اختیار ہیں جبکہ یہ عقائد کو مربوط کرنے کے لیے نازل ہوئے ہیں اور انسان کی تعلیم کے لیے کہ کس خدا کے ساتھ ٹھیک رشتہ اُستوار ہوتا ہے کافی ہیں ۔ بائبل نہ صرف خدا کے الہام سے ہونے کا دعویٰ کر تی ہے بلکہ تبدیل کرنے اور مکمل کرنے مافوق الفطرت صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔

ایکدوسری آیت جو کہ صحائف کے الہامی ہونے کے بارے میں ہے 2 پطرس 1 : اُس کی 21 آیت ہے یہ آیت ہمیں یہ سمجھنےمیں مدد دیتی ہے کہ اگرچہ خدا نے انسانوں کو اُن کی اِمتیازی شخصیات اور لکھنے کے انداز کے ساتھ استعمال کیا اُن کا لکھا ہوا ہر لفظ خدا کی طرف سے الہام ہے ، یسوع بذاتِ خود اصحائف سے متعلق زبانی ہونےکا اقرار کرتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے " یہ نہ سمجو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ، کیونکہ میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا ۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے گا" اِن آیات میں یسوع اصحائف کی درستگی پر بہت تھوڑی سی وضاحت اور مبہم رموز و اوقاف کی علامات پر زور دے رہا ہے ، کیونکہ یہ خدا کا قطعی کلام ہے ۔

کیونکہ اصحائف خدا کا الہامی کلام ہے ۔ اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ پاک اور متبرک بھی ہیں ۔ خدا کے بارے میں درست نظریہ اُس کے کلام کے بارے میں درست نظریہ تک ہماری راہنمائی کرے گا ۔ کیونکہ خدا کامل قوت والا سب کچھ جاننے والا ، اور کُلی طور پر کامل ہے ۔ اُس کا کلام بھی بالکل اِسی طرح کی خوبیاں لیے ہوئے اِسی طرح کی فطرت کا ہو گا ۔ ا۔س طرح کی آیات جو کہ اصحائف کے الہام کو مستحکم کر تی ہیں ، اِس بات کو بھی رواج دیتی ہیں کہ یہ پاک اور متبرک ہیں ، بلاشُبہ بئبل وہی ہے جس کا یہ دوعویٰ کر تی ہے ۔ بنی نوع انسان کے لیے نا قابلِ انکار ، اختیار والا خدا کا کلام ہے ۔


سوال: ہمیں کیوں بائبل کو پڑھنا چاہیے ؟

جواب:
ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے لیے خدا کا کلام ہے ۔ بائبل ہو بہو" خدا کا الہام" ہے ۔ ( 2 تیمتھیس 3 : 16 ) ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارے لیے خدا کا اعلیٰ درجے کا کلام ہے یہاں پر بہت سارے سوالات ہیں جو کہ فلسفی پوچھتے ہیں جن کا جواب خدا کلام میں دیتا ہے ۔ زندگی کا کیا مقصد ہے ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ کیا موت کے بعد زندگی ہے ؟ میں کس طرح جنت حاصل کر سکتا ہوں ؟ دُنیا کیوں گناہوں سے بھری ہوئی ہے ؟ میں اچھائی کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہوں ؟ اِن " بڑے " سوالات میں اضافہ کرتے ہوئے بائبل اِس طرح کے معاملات میں بہت زیادہ عملی نصیحت دیتی ہے جیسا کہ میں ایک جوڑے میں ( شادی شُدہ) میں کیا دیکھتا ہوں ؟ میں کس طرح ایک کامیاب شادی کر سکتا ہوں ؟ میں کس طرح ایک اچھا دوست بن سکتا ہوں ؟ میں ایک اچھا والد ( والدہ) بن سکتا یا سکتی ہوں ؟ کامیابی کیا ہے اور میں کس طرح حاصل کر سکتا ہوں ؟ میں بدل سکتا ہوں ، زندگی میں حقیقی معاملات کیا ہیں ؟ میں کس طرح زندگی گُزار سکتا ہوں تاکہ مُجھے پچھلے کیے پر پچھتانا نہ پڑے ۔ میں زندگی کے نا موافق حالات اور بُرے واقعیات کو کس طرح کامیابی سے نمنٹ سکتا ہوں ؟

ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ مکمل طور پر اعتماد اور غلطی کے بغیر ہے۔ بائبل " مقدس" کہلائی جائے ، کُتب میں بِکتا ہے جو کہ محض اخلاقی تعلیمات نہیں دیتی ہے اور کہتی ہے " مُجھ پر ایمان رکھو " بلکہ ہمیں اِس کی بیان کی ہوئی سینکڑوں پیشن گوئیوں کی جانچ کرتے ہوئے اِس کے تاریخی بیانات جو کہ اِس میں درج ہیں اِن کی جانچ کرتے ہوئے اور اُس کے متعلقہ ساینسی حقائق کی جانچ کر تے ہوئے اِس کی قابلیت کی آزمائش کرنا ہو گی ۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بائبل میں اغلاط ہیں اُن کے کان سچائی سُننے سے قاصر ہیں ۔ یسو ع سے ایک دفعہ پوچھا گیا جو کہ کہنا نہایے آسان ہے ،" تمہارے گناہ معاف ہوئے" یا " اُتھ اپنی چارپائی اُٹھا اور چل پھر " پھر اُس نے ثابت کیا کہ وہ معذور کو شفا دیتے ہوئے ( جو اُس کے اِردگر دتھے اپنی آنکھوں سے جانچ کر سکتے تھے ) ۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار رکھتا تھا ( کچھ ایسا جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ) بالکل اِسی طرح ہمیں یقین دلاتا ہے کہ خدا کا کلام سچا ہے جب یہ روحانی معاملات پر بحث کرتا ہے جن کو ہم اُن معاملا ت میں اِن کی اپنی سچائی کو دیکھتے ہوئے اپنی حسیات سے نہیں جان سکتے ہیں جن کو ہم جانچ سکتے ہیں جیسا کہ تاریخی سچائی ، سائنسی سچائی ، اور پیشن گوئی کی سچائی ۔

ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا اور پڑھنا چاہیے کیونکہ خدا تبدیل نہیں ہوتا ہے اور کیونکہ بنی نوع انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوتی ۔ یہ ایسے ہی ہمارے متعلق ہے جیسا کہ یہ تب تھی جب یہ لکھی گئی تھی ۔ جبکہ ٹیکنالوجی تبدیل ہوتی ہے بنی نوع انسان کی فطرت اور خواہشات تبدیل نہیں ہوتیں ۔ جیسے جیسے ہم بائبل کی تاریخ کے صفات کو پڑھتے ہیں کہ خواہ ہم ایکدوسرے کے ساتھ روابط یا معاشروں کی بات کرتے ہیں دُنیا میں کوئی چیز نئی نہیں ہے ( واعظ 1 باب 9 آیت ) اور جب بنی نوع انسا ن اجتماعی طو ر پر اُن تمام غلط جگہوں میں محبت اور اطیمنان کی تلاش جاری رکھتے ہیں خدا ہمارا اچھا اور مہربان خالق ہے ، ہمیں بتاتا ہے کیا چیز ہمیں ابدی خوشی دے گی ، اُس کا الہامی کلام بائبل نہایت اہم ہے کہ یسوع نے اِس کے بارے فرمایا " آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے " دوسرے الفاظ میں اگر ہم مکمل طور پر زندگی گُزارنا چاہتے ہیں جیسا کہ خدا کی مرضی ہے تو ہمیں اِسے سُننا چاہیے اور خدا کے لکھے ہوئے کلام کو توجہ سے سُننا چاہیے ۔

ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہاں پر بہت ساری غلط تعلیمات ہیں ، بائبل ہمیں ماپنے والی ایک چھڑی دیتی ہے جس سے ہم غلطی میں سے سچائی کو ممتاز کر سکتے ہیں ۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کس طرح ہے ۔ خدا کے بارے میں غلط تاثر رکھنا ایک بُت یا غلط دیوتا کی پوجا کرنا ہے ۔ ہم کسی ایسی چیز کی پرستش کر رہے جو کہ وہ ( خدا ) نہیں ہے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی کس طرح حقیقی طور پر جنت حاصل کرتا ہے اور یہ نیک ہونے یا بپتسمہ لینے یا کوئی ایسا کام کرنے سے جو ہم کر تے ہیں حاصل نہیں ہوئی ۔ ( یوحنا 14 : 6 ، افسیوں 2 : 1 ۔ 10 ، یسعیاہ 53 : 6 ، رومیوں 3 : 10 ۔ 18، 10 : 9۔ 13 ، 6 :23 ، 5 : 8 )۔ اِس لائن کے ساتھ خدا کا کلام ہمیں دکھاتا ہے کہ خدا ہمیں کتنا پیارکرتا ہے ( رومیوں 5 : 6 ۔ 8 ، یوحنا 3 : 16 ) ۔ اور اِس میں سے یہ سیکھتے ہوئے کہ ہم اِس لیے محبت رکھتے ہیں کہ اُس نے ہم سے محبت رکھی ( 1 یوحنا 4 : 19 آیت )

بائبل ہمیں خدا کی خدمت کرنے کے لیے آراستہ کر تی ہے ( 2 تیمتھیس 3 : 17 ، افسیوں 6 : 17 ، عبرانیوں 4 : 12 ) ۔ یہ ہمیں یہ جاننے میں کہ ہم کس طرح اپنے گناہوں سے نجات پا سکتے ہیں اور اِس ( گناہ) کے آخری نتائج کے بارے میں ہماری مدد کر تی ہے ( 2 تمتھیس 3 : 15 )۔ خدا کے کلام پر غور و فکر کرنے سے اور اِس کی تعلیمات کی تابعداری کرنے سے زندگی میں کامیابی حاصل ہو گی ( یشوع 1 : 8 ، یعقوب 1 : 25 ) ۔ خدا کا کلام ہماری زندگیوں میں گناہ کو دیکھنے اور اِسے چھٹکارہ پانے میں ہماری مدد کرتا ہے ( زبور 119 : 9 ،11 ) ۔ یہ زندگی میں ہمیں راہنمائی دیتی ہے ہمیں اُستادوں سے زیادہ دانشمند بناتی ہے ( زبور 119: 8 ، 32 ، 99 ، امثال 1 : 6 ) ۔ بائبل ہمیں ہماری زندگیوں کے سال ضائع ہونے سے بچاتی ہے جو کہ اصل حقیقت ِ حال نہیں اور ابدی نہیں ہو نگے ۔ ( متی 7 : 24 ۔ 27 ) ۔

بائبل کا پڑھنا اور مطالعہ کرنا ہمیں گناہ آلود ہ بہکاوے میں ، پُر درد " جال " کی پُر کشش " تحریص " سے پرے دیکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم بظاہر ایسا کرنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ سکیں ۔ تجربہ ایک عظیم اُستاد ہے لیکن یہ گناہ سے سیکھا جاتا ہے یہ ایک خوفناک قسسم کا اُستاد ہوتا ہے ۔ لیکن یہ گناہ سے سیکھا جاتا ہے ، اِس سے زےادہ بہتر دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا اہے ۔ یہاں پر بہت سارے بائبل کے کردار ہیں جنہوں نے اِس سے سیکھا اُن میں سے کچھ نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں مثبت اور منفی دونوں طرح سے ایک مثالی کر دار کی طرح خدمت کر سکیں ۔ مثال کے طور پر داود جھولیت کہ اپنی شکست سے ہمیں سکھاتا ہے کہ خدا کسی بھی چیز سے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ کہتا ہے عظیم تر ہے ۔ ( 1 سیموئیل 17 ) جبکہ بیت سباہ کے ساتھ زنا کرنے کے بہکاوے میں آتے ہوئے آشکار کیا کہ ایک لمحے کا گناہ احساس کتنا لمبا اور خوفناک ہو سکتا ہے ( 2 سیموئیل 11) ۔

بائبل ایک کتاب ہے جو کہ صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہے یہ مطالعہ کرنے کی کتاب ہے تاکہ اِسے لاگو کیا جا سکے ۔ دوسری طرح یہ بغیر چبائے نگلنے والی خوراک کی طرح ہے اور پھر اِسے دوبارہ تھوک دیا جاتا ہے ۔ اِسے کوئی غذایت حاصل نہیں ہو تی ہے ۔ بائبل خدا کا کلام ہے جیسا کہ یہ اِسی طرح ضروری ہے جس طرح فطرت کے قوانین ضروری ہیں ۔ ہم اِسے رد کر سکتے ہیں لیکن ہم ایسا اپنے فیصلہ سے کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم کششِ ِ ثقل کے قانون کو رد کرنے سے کریں گے ۔ ا،س پر مستحکم زور نہیں دیا جا سکتا ہے ایسا زیادہ کہ بائبل ہماری زندگیوں کے لیے کتنی اہم ہے ۔ بائبل کے مطالعہ کا سونے کی کان کنی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے ، اگر ہم تھوڑی سی کوشش کر تے ہیں اور محض " کنکریاں ایک ندی میں پھینکتے ہیں " تو ہم صرف تھوڑی سی سونے کی دھول حاصل کر تے ہیں ۔ لیکن مزید ہم اِس میں گڑھا کھودنے کی حقیقی کوشش کر تے ہیں تو ہم اپنی کوشش سے مزید انعام حاصل کریں گے ۔