انسانیت کے بارے سوالات

سوال: اِس کا کیا مطلب ہے کہ انسان خدا کی شبیہ پر مشاہبت پر بنا ہے ( پیدائش 1 : 26 ۔ 27 ) ؟

جواب:
تخلیق کے آخری دن خدا نے کہا ، " آو ہم انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی شبیہ کی مانند بنائیں " (پیدائش 1 : 26 ) ۔ پس وہ اپنے کام کو " ذاتی فنی مہارت " کے ساتھ ختم کرتا ہے۔ خدا نے انسان کو مٹی سے بنایا اور اپنا دم پھونکنے سے اِسے زندگی عطا کی ( پیدائش 2 : 7 ) ۔ اِس کے مطابق انسان خدا کی تمام مخلوقات میں مادی جسم اور غیر مادی جان / روح رکھنے کی بدولت عدیم المثال ہے ۔

سادہ ترین اصطلاح میں خدا کی " شبیہ " یا " مشابہ " ہونے کا مطلب ہے کہ ہم خدا کی مانند بنائے گئے تھے ۔ آدم خدا کے گوشت اور خون میں ہونے کے تناظر میں خدا کی مانند نہیں تھا ۔ کلام کہتا ہے کہ " خدا روح ہے " ( یوحنا 2 : 24 ) اور چنانچہ وہ ایک جسم کے بغیر موجود ہے ۔ تاہم آدم کا جسم خدا کی زندگی کا عکس ہے حتہ کہ جیسے یہ کامل صحت اور موت کے زیرِ اثر نہ تھا ۔

خدا کی شباہت انسان کے غیر مادی حصہ کا حوالہ دیتی ہے ۔ یہ انسان کو جانوروں کی دُنیا سے علیحدہ رکھتی ہے ۔ اُسے زمین خدا کی دی ہوئی حاکمیت کے لائق بناتی ہے( پیدائش 1 : 28 ) اور اُسے اپنے خالق کے ساتھ رابطے کے قابل بناتی ہے ۔ یہ ایک ذہنی ، اخلاقی اور سماجی مشاہبت ہے ۔

ذہنی طور پر انسان ایک ذی عقل مرضی پسند نمائندہ کے طور پر پیدا ہوا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں انسان وجہ جان سکتا ہے اور انسان انتخاب کر سکتا ہے ۔ یہ خدا کی شعوری قوت اور آزادی کا یک عکس ہے ۔ کسی بھی وقت جب کوئی ایک مشین ایجاد کرتا ہے ، ایک کتاب لکھتا ہے ، ایک پینٹنگ میں رنگ بھرتا ہے ، ایک نغمے سے لطف اندوز ہوتا ہے ، ایک سوال کا حسا ب کتاب کرتا ہے یا ایک پالتو جانو ر کا نام رکھتا ہے ، وہ ( مرد) یا وہ ( عورت) اِس حقیقت کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے کہ ہم خدا کی مشاہبت پر تخلیق ہوئے ہیں ۔

اخلاقی طور پر انسان خدا کی تقدیس کے ایک عکس راستبازی اور کامل معصومیت پر تخلیق ہوا تھا ۔ خدا نے جو اُس نے بنایا تھا سب پر نظر کی ( بنی نوع انسان سمیت ) اور اِسے " بہت اچھا ؃ کہا ( پیدائش 1 : 31 ) ہمارا ضمیر یا " اخلاقی وسعت " اِس حقیقی سلطنت کی ایک نشانی ہے ۔ جب کبھی کوئی شخص ایک قانون لکھتا ہے ، بُرائی سے پیچھے ہٹتا ہے ، اچھے رویے کی تعریف کرتا ہے یا پشیمانی محسوس کرتا ہے وہ اِس حقیقت کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کہ ہم خدا کیاپنی شبیہ کی مانند بنائے گئے ہیں ۔

سماجی طور پر انسان رفاقت کے لیے تخلیق کیا گیا تھا ۔ یہ خدا کی ثلاثہ فی لواحد فطرت اور محبت کی عکاسی کرتی ہے ۔ عدن میں انسان کا ابتدائی رشتہ خدا کے ساتھ تھا ( پیدائش 3 : 8 خدا کے ساتھ رفاقت کیطرف اشارہ کر تی ہے ) اور خدا نے پہلی عورت کو بنایا کیونکہ " آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں ہے " ( پیدائش 2 : 18 ) ہر اُس وقت جب کوئی شخص شادی کرتا ہے ، دوست بناتا ہے ، ایک بچے کو گلے لگاتا ہے یا گرجا گھر میں جاتا ہے وہ اِس حقیقت کو بیان کر رہا ہوتا ہے کہ ہم سب خدا کی مانند بنائے گئے ہیں ۔

خدا کی شبیہ کا حصہ بننا یہ ہے کہ آدم آزادانہ انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتا تھا ۔ اگرچہ اُسے ایک راستباز فطرت سے نوازا گیا تھا آدم نے اپنے خالق کے سامنے بغاوت کرنے کی بُرائی کا انتخاب کیا تھا ۔ ایسا کرنے میں آدم نے اپنے آپ میں خفیہ طور پر خدا کی شبیہ کو چھپائے رکھا اور اِس تباہ شُدہ مشابہت کو اپنی نسل میں منتقل کر دیا ( رومیوں 5 : 12 ) ۔ آج ہم ابھی تک خدا کی شبیہ کی تصدیق کر تے ہیں ( یعقوبکا خط 3 : 9 ) ۔ لیکن ہم گناہ کے نشانات کی بھی تصدیق کرتے ہیں ۔ ذہنی ، اخلاقی ، سماجی اور جسمانی طور پر ہم گناہ کے اثرات دکھاتے ہیں ۔

خوشخبری کی بات یہ ہے کہ جب خدا کسی شخس کو نجات بخشتا ہے تو خدا کی اصل شبیہ کو ایک " نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی اور راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے ۔" کو تخلیق کرتے ہوئے بحال کرنا شروع کرتا ہے ( افسیوں 4 : 24 ) یہ نجات صرف گناہ سے بچنے کے لیے جو ہمیں خدا سے الگ کرتا ہے یسو ع مسیح میں ایک نجات دہندہ کے طور پر ایمان رکھنے کا وسیلہ سے خدا کے فضل سے ہی دستیاب ہے ۔ ( افسیوں 2 : 8 ۔ 9 ) مسیح کے وسیلہ سے ہم خدا کی مانند نئی مخلوق بنتے ہیں ( 2 کرنتھیوں 5 : 17 ) ۔


سوال: کیا ہمارے دو یا تین حصے ہیں ؟ کیا ہم بدن ، جان ، روح یا بد ن ، جان و روح ہیں ؟

جواب:
پیدائش 1 : 26 ۔ 27 نشاندہی کر تی ہے کہ کچھ ایسا ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتا ہے ۔ بنی نو ع انسان خدا کے ساتھ ایک رشتہ استوار کرنے کے خواہش مند تھے اور جیسا کہ خدا نے ہمیں مادی اور غیر مادی حصوں سے تخلیق کیا ۔ واضح مادہ وہ ہے جو کہ محسوس کیے جانے کے قابل ہو ، جسمانی بدن ، ہڈیاں ، اعضا ء وغیرہ ، اور تب تک باقی رہتے ہیں جب تک ایک آدی جیتا رہتا ہے ۔ غیر مادی حالتیں وہ ہیں جو کہ محسوس کیے جانے کے قابل نہ ہوں جو کہ جان ، روح ، عقل ، مرضی ، ضمیر وغیرہ ہیں ۔ یہ انسان کی زندگی کی وسعت سے پرے رہتی ہیں۔

تمام انسان مادی اور غیر مادی دونوں طرح کی خصوصیات کے حامل ہو تے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ تمام بنی نوع انسان گوشت ہڈیوں ، اعضا ء اور خلیات پر مشتعمل ایک بدن رکھتے ہیں ۔ تاہم یہ انسان کی محسوس نہ کیے جانے والی خصوصیات ہیں جو کہ اکثر زیرِ بحث آتی ہیں ۔ اِن کے بارے میں کلام کیا کہتا ہے ؟َ پیدائش 2 باب 7 آیت بیان کر تی ہے کہ انسان ایک جیتی جان کے طورپر خلق ہوا تھا ۔ گنتی 16 باب 22 آیت میں خدا کو " روح کا خدا" کے طور پر پُکارا گیا ہے جو کہ تمام انسان رکھتے ہیں ۔ امثال 4 باب 23 آیت ہمیں بتاتی ہے " اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ ازندگی کا سرچشمہ وہی ہے " یہ نشاندہی کر تی ہے کہ دل انسان کی خواہش اور جذبات کا مرکز ہے ۔ اعمال 23 باب 1 آیت کہتی ہے ، " پولس نے صدرِ عدالت والوں کو غور سے دیکھ کع کہا ے بھائیو ! میں نے آج تک کمال نیتی سے خدا کے واسطے عُمر گزاری ہے ۔" یہاں پر پولس ضمیر کا حوالہ دیتا ہے ۔ ذہن کا وہ حصہ جو کہ ہمیں اچھے بُرے کی شناخت کرواتا ہے ۔ رومیوں 12 باب 2 آیت بیان کر تی ہے ۔ " اور اِس جہان کے ہمزکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاو تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تضربہ سے معلوم کر تے رہو ۔ یہ آیات اور بہت ساری دوسری آیات انسان کے غیر مادی حصے کی بہت ساری حالتوں کا حوالہ دیتیں ہیں ۔ ہم مادی اور غیر مادی دونوں خصوصیات کو مکمل طور پر زیرِ بحث لاتے ہیں ۔

پس جان اور روح سے زیادہ اِس کا خاکہ پیش نہیں کرتا ہے ۔ کسی نہ کسی طرح جان ، روح ، ضمیر اور ذہن باہم جُڑے ہوئے اور ایک دسسرے سے متعلقہ ہیں ۔ اگرچہ جان او ر روح حقیقی طور پر انسان کی بنیادی غیر مادی حالتیں ہیں ۔ وہ دوسرے پہلووں کی طرح قابلِ اعتماد ہیں۔ اِس ذہن کے ساتھ کہ کیا انسان دو حصوں میں منقسم ہے ( دوحصوں میں بٹا ہوا ، بدن / جان ۔ روح ) یا تین حصوں میں منقس ہے ( تین حصوں میں ، بدن / جان / روح ) اِس کا راسخ الاعتقاد ہونا نا ممکن ہے ۔ یہاں پر دونوں نظریات کے لیے بہت اچھے دلائل ہیں ۔ عبرانیوں4 باب اُسکی 12 آیت ایک کُلیدی آیت ہے ،" کیونکہ خدا کا کلامِ زندہ اور موثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور بند بند اور گُودے کو جُدا کر کے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے ۔" یہ آیت اِس بحث کے بارے میں ہمیں کم از کم دو باتیں بتاتی ہے ۔ جان اور روح منقسم ہو سکتیں ہیں اور جان اور روح کی تقسیم وہ چیز جس کا عقلی امتیاز صرف خدا ہی کر سکتا ہے ۔ کسی ایسی چیز پر مرتکز ہونے کی بجائے جسے ہم یقینی طور پر نہیں جان سکتے ہیں ، خالق پر مرکوز ہونا ہے ۔ بہتر ہے ، جس نے ہمیں " عجیب و غریب اور حیرت انگیز بنایا ہے ( زبور139 : 14 ) ۔


سوال: انسنا کی جان اور روح کے درمیان کیا فرق ہے ؟

جواب:
جان اور روح دو بنیادی غیر مادی پہلو ہیں جنہیں کلام بنی نوع انسان سے منسوب کرتا ہے ۔ اِن دونوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک تفریق کے ادراک کی کوشش کرنا پریشان کن ہو سکتا ہے ۔ لفظ " روح" صرف انسان کے غیر مادی پہلو کا حوالہ دیتا ہے۔ بنی نوع انسان ایک روح رکھتے ہیں لیکن کیا ہم ارواع نہیں ہیں ۔ تاہم کلام میں صرف ایماندار کو روحانی طور پر زندہ کہا گیا ہے ۔ ( 1 کرنتھیوں 2 :11 ، عبرانیوں 4: 12 ، یعقوب2 : 26 ) جبکہ غیر ایماندار روحانی طور پر مُردہ ہیں ( افسیوں 2 : 1 ۔ 5 ، کُلسیوں 2 : 13 ۹ پولس کے صحائف میں روحانیت ایماندار کی زندگی کا مرکزی حصہ تھا ( 1 کرنتھیوں 2 : 14 ، 3 : 1 ، افسیوں 5 : 19 ، 1 : 3 کُلسیو ں 3 : 16 ، 1 : 9 ) ۔ انسان میں روح وہ عنصر ہے جو کہ ہمیں خدا کے ساتھ ایک گہرا رشتہ استوار کرنے کی قابلیت سے سرفراز کرتا ہے۔ جب کبھی لفظ " روح " استعمال ہوا ہے یہ انسان کے غیر مادی حصے جو کہ خدا کے ساتھ " جوڑتا ہے ، جو بذاتِ خود بھی روح ہے اِس کا حوالہ دیتا ہے ( یوحنا 4 : 24 ) ۔

لفظ " جان " بنی نوع انسان کے مادی اور غیر مادی دونوںپہلووں کا حوالہ دے سکتا ہے ۔ اِس کے بر عکس کہ بنی نوع انسان ایک روح رکھتے ہیں ، بنی نوع انسان جانیں رکھتے ہیں ۔ اِس کے نہایت بنیادی تناظر میں لفظ " جان " کا مطلب " زندگی" ہے ۔ تاہم اَس ضروری معنی سے ہٹ کر بائبل جان کے بارے میں بہت سارے سیاق و اسباق کے حوالہ جات میں بات کرتی ہے ۔ اِن میں سے ایک بنی نوع انسان کی گناہ کی طرف رغبت ہے ( لوقا 12 : 26 ) انسان فطری طور پر بدی کا حامل ہے ، اور ہماری جانیں ایک نتیجہ کے طور پر پراگندہ ہیں ۔ جسمانی موت کے وقت جان کا زندگی کا اصول ختم ہو جاتا ہے ۔ ( پیدائش 35 : 18 ، یرمیاہ15 : 2 ) جان جیسا کہ روح کے ساتھ یہ بہت سارے روحانی اور جذباتی تجربات کا مرکز ہے ( یعقوب 30: 25 ، زبور 43 : 5 ، یرمیاہ 13 : 17 ) جب کبھی لفظ " جان " استعمال ہوتا ہے ، یہ مکمل انسان کا حوالہ دے سکتا ہے خواہ وہ زندہ ہے یا اگلے جہان میں ہے ۔

جان اور روح آپس میں جُڑی ہوئی ہیں لیکن الگ ہونے کے قابل ہیں ( عبرانیوں 4 : 12 ) جان انسانی مخلوق کی ماہیت ہے ، یہ بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں ۔ روح بنی نوع انسان کا وہ پہلو ہے جو ہمیں خدا سے جوڑتا ہے ۔


سوال: پیدائش میں لوگ لمبی عمریں کیوں جیتے تھے ؟

جواب:
کسی حد تک یہ پُر اسرار بات ہے کہ پیدائش کے ابتدائی ابواب میں لو گ ایسی لمبی عمریں کیوں جیتے تھے ۔ یہاں پر بائبل کے علما حضرات کی طرف سے بہت سارے نظریات پیش کیے گئے ہیں ۔ پیدائش 5 باب میں نسب نامہ آد م کی پرہیز گار نسل کا شجرہ بیان کرتا ہے ، وہ شجرہ جس نے آخر کار مسیح کو پیدا کرنا تھا ۔ ممکنہ طور پر خدا نے اُن کی پرہیز گاری اور تابعداری کے ایک نتیجہ کے طور پر اِس شجرہ کو خاص لمبی عُمروں سے نوازا ہو ۔ جبکہ یہ ایک ممکنہ وضاحت ہے ۔ بائبل کہیں بھی پیدائش 5 باب میں بیان شُدہ افراد کو لمبی زندگی کی وسعت کا مخصوص انداز میں احاطہ نہیں کر تی ہے ۔ مزید براں حنوک سے بڑھ کر پیدائش 5 باب انسانوں میں سے کسی کی خاص طور پر پرہیز گار ہونے کی شناخت نہیں کرتا ہے ۔ یہ قرین قیاس ہے کہ اُس دور میں ہر کوئی کئی سو سال تک جیتا رہا ۔ غالبا ً اِس میں بہت سارے عوامل نے حصہ لیا ۔

پیدائش 1 : 6 ۔ 7 وسیع و عریض رقبے پر پانی ، پانی کے ایک سائبان کا حوالہ دیتی ہے ، جس نے زمین کو گھیر رکھا تھا ۔ پانی کا ایسا سائبان شاید ایک سبز خانے کا تاثر بیان کرتا ہو سورج کی بہت سی شعاعوں کو روکتا ہو گا جو کہ اب زمین کو نشانہ بناتی ہیں ۔ اِس کا نتیجہ زندہ رہنے لیے مثالی حالات کے طور پر ہو تا ہو گا ۔ پیدائش 7 : 11 اشارہ کر تی ہے کہ سیلاب کے وقت پانی کے سائبان نے زمین کو ڈھانپ لیا تھا اور زندہ رہنے کے لیے مثالی حالات ختم ہو غ۴ے ۔ سیلاب سے پہلے ( پیدائش 5 : 1 ۔ 32 ) کی زندگی وسعتوں کا موازنہ اں کے ساتھ جو سیلاب کے بعد ( پیدائش 11 : 10 ۔ 32 ) کے ساتھ کریں ۔ سیلاب کے فوراً بعد عمریں ڈرامائی انداز میں کم ہو گئیں ۔

ایک اور خیال یہ ہے کہ تخلیق کے بعد کی اولین چند نسلوں میں انسانی توالیدی ضوابط میں کچھ خامیاں ترویج پا چُکی تھیں ۔ آدم اور حوا کا مل تخلیق کیے گئے تھے ۔ وہ بیماریوں اور وباوں کے خلاف یقینی قدرتی مدافعت رکھتے تھے ۔ اُن کی نسل یہ مفادات اگرچہ کہ کم تر رجے میں وراثت میں حاصل کرے گی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ گناہ کے نتیجے کے طور پر انسانی توالدی نظام آہستہ آہستہ خراب ہو گیا اور انسان موت اور بیماری کی طرف زیادہ سے زیادہ تغیر قبول بن گیا ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی میں انتہا پسندانہ کمی واقع ہوئی ۔


سوال: مختلف نسلوں کا نسب کیا ہے ؟

جواب:
بائبل ہمیں بنی نوع انسان میں مختلف " نسلوں" اور جلد کی رنگت کا نسب واضح طور پر نہیں دیتی ہے ۔ حقیقت میں صر ف ایک نسل ۔ نسلِ انسانی ہی ہے ۔ نسلِِ انسانی میں جلد کی رنگت دوسری جسمانی خصوصیات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں کی قیاس آرائی ہے کہ جب بابل کے مینار پر خدا نے زبانوں کو بگاڑ دیا ( پیدائش 11 : 1 ۔ 9 ) اُس نے نسلی بگاڑ بھی پیدا کیا ۔ یہ ممکن ہے کہ خدا نے مختلف ماحول میں لوگوں کے رہنے کی قابلیت کو بہتر بنانے کے لیے توالدی تبدیلیاں پیدا کی ہوں ۔ جیسا کہ افریقیوں کی سیاہ فارم رنگت افریقہ میں بہت زیادہ گرمی میں رہنے کے لیے توالدی طور پر بہتر آراستہ ہو تے ہیں۔ اِس نظریہ کے مطابق خدا نے زبانوں میں بگاڑ پیدا کیا انسانوں کو زبان کے اعتبار سے الگ کرنے کے لیے بگاڑ پیدا کیا اور پھر توالدی نسلی امتیازات اِس بنیاد پر پیدا کیے کہ جہاں ہر نسلی گروہ آخر کار آباد ہو گیا ۔ جبکہ ممکن ہے اِس نظریہ کے لیے بائبل کوئی واضح بنیاد موجود نہیں ہے ۔ بنی نوع انسان کی نسلیں / جلد کی رنگت کا کسی بھی طرح بابل کے مینار کے ساتھ جُڑے ہوئے ہونے کا حوالہ نہیں ملتا ۔

سیلاب کے بعد جب مختلف زبانیں معرضِ وجود میں آئیں تو گروہ جو ایک زبان بولتے تھے اِسی طرح کی زبان بونے والے دوسرے لوگوں کے ساتن تبدیل ہو تی رہی ۔

قریبی رشتہ داروں میں داخلی تولید ہوئی اور وقت پر اُن مختلف گروہوں میں یقینی خدوخال پر زور دیا گیا تھا ( وہ سب جو کہ توالدی ضابطہ میں ممکن تھے ) ۔ مزید براں نسلوں تک داخلی تولید ہوتی رہی ، موروثی خصوصیات کی حامل جماعت چھوٹی سے چھوٹی ہوتی ہے اِس حد تک کہ ایک زبان بولنے والے خاندان ایک طرح کے یا اِسی طرح کے خدو خال رکھتے تھے ۔

ایک اور وضاحت یہ ہے کہ آدم اور حوا سیاہ فارم ، بھورے اور فسید فارم ( اور اِس کے درمیانی کوئی رنگ ) بچے پیدا کرنے کی موروثی خصوصیت کے حامل تھے ( یہ بالکل اِس طرح ہو گا کہ کس طرح ملی جُلی نسل کا ایک جو ڑا بعض اوقات ایسے بچے پیدا کرتا ہے جو رنگت میں مختلف ہو تے ہیں ۔ ظاہری طو ر پر جب سے خدا نے بنی نوع انسان کے طرح طرح کے خدو خال دینے کی خواہش کی ہے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ خدا آدم او ر حوا کو مختلف جلدی خصوصیات کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت دے چُکا ہو گا ۔ بعد میں سیلاب میں زندہ بچ جانے والے لوگ نوح اوراُس کی بیوی ، نوح کے تین بیٹے اور اُن کی بیویوں ، کُل آٹھ لوگ تھے ( پیدائش 7 : 13 ) غالبا نوح کی بہوویں مختلف نسل تھیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نوح کی بیوی نوح سے مختلف نسل ہو ۔ ہو سکتا ہے آٹھ میں سے سب کے سب ملی جُلی نسل کے تھے جس کا مطلب ہے کہ وہ مختلف النسل بچے پیدا کرنے کی موروثی خصوصیت کے حامل تھے ۔ وضاحت جو کوئی بھی ہو اِس سوال کا سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہم سب ایک ہی نسل سے ہیں ، سب کو ایک ہی خدا نے تخلیق کیا ، سب ایک ہی مقصد کے لیے تخلیق کے گئے کہ اُس کی پرستش کریں ۔


سوال: نسل پرستی ، تعصب اور تفریق کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے ؟

جواب:
اِس بحث میں سمجھنے والی اولین بات یہ ہے کہ یہاں ہر صرف ایک ہی نسل ہے وہ نسلِ انسانی ہے ۔ کاکشیائی ۔ افریقی ، اییشیائی ، ہندوستانی ، عربی اور مختلف نسلیں نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ نسلِ انسانی کے مختلف علاقائی گروہ ہیں ۔ تمام انسان ایک جیسی جسمانی خصوصیات رکھتے ہیں ( بے شک تھوڑے بہت تغیرات کے ساتھ ہی سہی ) ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان خدا کی شبیہ پر اور اُس کی مانند تخلیق ہوئے ہیں ( پیدائش 1 : 26 ۔ 27 ) ۔ خدا دُنیا سے بہت زیادہ محبت رکھتا ہے کہ اُس نے یسوع کو بھیجا کہ وہ ہمارے لیے اپنی زندگی قُربان کرے ( یوحنا 3 : 16 ) واضح طور پر " دُنیا " میں تمام علاقائی گروہ شامل ہیں ۔

خدا جانب داری یا بے جا رعایت نہیں دکھاتا ہے ( استثنا 10 : 17 ) اعمال 10 : 34 ، رومیوں 2 : 11 ، افسیوں 6 : 9 ) اور نہ ہی ہمیں دکھانی چاہیے ۔ یعقوب 2 : 4 آیت اپنکو بیان کر تی ہے وہ جنہوں نے " ند نیت منصف " کے طور پر تفریق کی ۔ اس کی بجائے ہمیں اپنے پڑوسیوں سے اپنی طرح پیار کرنا ہو گا ۔ ( یعقوب 2 : 8 ) ۔ پُرانے عہد نامے میں خدا نے بنی نو ع انسان کو دو " علاقائی گروہوں " یہودیوں اور غیر یہودیوں میں تقسیم کیا تھا ۔ یہودیو ں کے لیے خا کا منصوبہ غیر یہود ی اقوام میں منادی کرنے کے لیے پادریوں کی بادشاہت بنانا تھا ۔ اِس کی بجائے زیادہ تر یہودی اپنے رُتبے پر متکبر ہو گئے اور غیر یہودیوں کو حقارت سے دیکھنے لگے ۔ یسوع مسیح نے اختلاف کی تقسیم کرنے والی دیوار کو نیست و نابود کر تے ہوئے اِس کو اختتام تک پہنچایا ۔ ( افسیوں 2 : 14 ) نسل پرستی ، تعصب اور تفریق کی تمام قسمیں صلیب پر مسیح کے عمل کی کھلم کھُلا تو ہین کر تی ہیں ۔

یسوع ہمیں ایک دوسرے سے ایسے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے جیسے وہ ہم سے محبت کرتا ہے ( یوحنا 13 : 34 ) اگر خدا غیر جانبدار ہے اور غیر جانبداری سے ہمیں محبت کرتا ہے ، تو پھر ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ اِس طرح کی اعلیٰ معیار کے ساتھ محبت کرنے کی ضرورت ہے ۔ متی 25 باب میں یسوع ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہم اس کے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کر تے ہیں ، اُس کے ساتھ کر تے ہیں ۔ اگر ہم ایک شخص کے ساتھ حقارت کا برتاو کر تے ہیں تو ہم خدا کی شبیہ پر تخلیق شُدہ ایک آدمی کی توہین کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم کسی کی دل آزاری کر رہے ہوتے ہیں جسے خدا پیار کرتا ہے اور جس کے لیے یسوع موا تھا ۔

نسل پرستی ہزاروں سالوں تک بہت ساری شکلوں میں اور بہت سارے درجوں میں انسانیت پر ایک طاعون کی طرح رہی ہے ۔ تمام علاقائی گروہوں کے بھائیوں اور بہنوں کو ایسا نہیں ہو نا چاہیے ۔ نسل پرستی ، تعصب اور تفریق کے شکار لوگوں کو معاف کرنے کی ضرورت ہے ۔ افسیوں 4 : 32 بیان کر تی ہے ، " اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کیے تُم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔"

نسل پرستی کرنے والے شاید آپ کی معافی کے مستحق نہیں یں لیکن ہم خدا کی معافی کے مستحق ہیں ۔ وہ جنہوں نے نسل پرستی ، تعصب اور تفریق کرتے ہیں اُن کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے ، " اپنے آپ کو مُردوں میں سے زندہ جان کر خدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضاراستبازی کے ہتھیار ہونے کے لیے خدا کے حوالہ کرو ۔" شاید گلتیوں 3 : 28 مکمل طورپر اظہار کرتی ہے ، " نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی ، نہ کوئی غلام نہ آزاد ، نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تُم سب مسیح یسوع میں ایک ہو ۔ "