Home

ایّوب

باب: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42


-Reset+

باب 3

1 اِسکے بعد ایوبؔ نے اپنا مُنہ کھولکر اپنے جنم دِن پر لعنت کی ۔
2 ایوبؔ کہنے لگا ۔
3 نابُود ہو وہ دن جس میں مَیں پیدا ہُوا اور وہ رات بھی جس میں کہا گیا کہ دیکھو بیٹا ہُوا !
4 وہ دن اندھیرا ہو جائے ۔خدا اُوپر سے اُسکا لحاظ نہ کرے اور نہ اُس پر روشنی پڑے !
5 اندھیرا اور موت کا سایہ اُس پر قابض ہوں ۔بدلی اُس پر چھانی رہے اور دن کو تاریک کر دینے والی چیزیں اُسے دہشت زدہ کردیں ۔
6 گہری تاریکی اُس رات کو دبوچ لے ۔وہ سال کے دِنوں کے درمیان خُوشی نہ کرنے پائے اور نہ مہینوں کے شمار میں آئے !
7 وہ رات بانجھ ہو جائے ۔ اُس میں خوشی کی کوئی صدا نہ آئے !
8 دِن پر لعنت کرنے والے اُس پر لعنت کریں اور وہ بھی جو اژدہا کو چھیڑنے کو تیار ہیں !
9 اُسکی شام کے تارے تاریک ہو جائیں ۔وہ روشنی کی راہ دیکھے جبکہ وہ ہے نہیں اور نہ وہ صُبح کی پلکوں کو دیکھے !
10 کیو نکہ اُس نے میری ماں کے رَحم کے دروازوں کو بند نہ کیا اور دُکھ کو میری آنکھوں سے چھپا نہ رکھاّ ۔
11 میں رَحم ہی میں کیوں نہ مرگیا؟ میں نے پیٹ سے نکلتے ہی جان کیوں نہ دے دی ؟
12 مُجھے قبول کرنے کو گھٹنے کیوں تھے اور چھاتیاں کہ میں اُن سے پُیوں ؟
13 نہیں تو اِس وقت میں پڑا ہوتا اور بے خبر رہتا میں سو جاتا ۔ تب مُجھے آرام ملتا ۔
14 زمین کے بادشاہوں اور مُشیروں کے ساتھ جنہوں نے اپنے لئے مقبرے بنائے ۔
15 یا اُن شاہزادوں کے ساتھ ہو تا جنکے پاس سونا تھا۔جنہوں نے اپنے گھر چاندی سے بھر لئے تھے ۔
16 یا پوشیدہ اسقاط حمل کی مانند میں وُجوُد میں نہ آتا یا اُن بچوّں کی مانند جنہوں نے روشنی ہی نہ دیکھی ۔
17 وہاں شریر فساد سے باز آتے ہیں ۔ اور تھکے ماند راحت پاتے ہیں ۔
18 وہاں قیدی ملکر آرام کرتے ہیں اور داروغہ کی آواز سُننے میں نہیں آتی ۔
19 چھوٹے اور بڑے دونوں وہیں ہیں اور نوکر اپنے آقا سے آزاد ہے ۔
20 دُکھیارے کو روشنی اور تلخ جان کو زندگی کیوں ملتی ہے ؟
21 جو موت کی راہ دیکھتے ہیں پر وہ آتی نہیں اور چھپے خزانوں سے زیادہ اُسکے جویان ہیں ۔
22 جو نہایت شادمان اور خوش ہوتے ہیں جب قبر کو پالیتے ہیں
23 اَیسے آدمی کو روشنی کیوں ملتی ہے جسکی راہ چھپی ہے اور جسے خدا نے ہر طرف سے بند کردیا ہے؟
24 کیو نکہ میرے کھانے کی جگہ میری آہیں ہیں اور میرا کراہتا پانی کی طرح جاری ہے۔
25 کیونکہ جس بات سے میں ڈرتا ہوں وہی مجھ پر گذرتی ہے ۔
26 کیونکہ مجھے نہ چین ہے نہ آرام نہ مجھے کل پڑتی ہے بلکہ مصیبت ہی آتی ہے۔